دنیا بھر میں فلسطینیوں کے بارے میں ایک نیا تنازعہ شروع ہو گیا ہے، جب امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک حیران کن تجویز دی کہ مصر اور اردن کو غزہ کے بے گھر فلسطینیوں کو پناہ دینے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ اس تجویز پر مشرق وسطیٰ میں خاص طور پر فلسطینیوں، مصر اور اردن کے حکام کی جانب سے شدید ردعمل آیا ہے۔
یہ تجویز ایک دن قبل، ہفتے کے روز سامنے آئی تھی جب ٹرمپ نے کہا، “میں اردن اور مصر کے حکام سے یہ درخواست کروں گا کہ وہ غزہ کے 2.3 ملین فلسطینیوں کو اپنی سرحدوں میں پناہ دیں۔ ہمیں غزہ کی مکمل صفائی کرنی ہے۔” یہ تبصرہ ایک ایسا چیلنج تھا جسے سیاسی مبصرین نے ایک نیا قدم اور شاید ایک سنگین تباہی کے طور پر دیکھا۔
ٹرمپ نے غزہ کو “تخریب کا منظر” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت غزہ کی حالت اتنی بدترین ہو چکی ہے کہ وہاں کے رہائشیوں کے لیے نئے مقامات پر پناہ لینا ضروری ہو سکتا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ اقدام فلسطینیوں کو اس بدترین جنگ کی حالت سے بچا سکتا ہے اور انہیں ایک بہتر زندگی کی طرف گامزن کر سکتا ہے۔
مگر یہ تجویز مصر اور اردن کے لیے ایک لمحہ فکریہ ثابت ہوئی۔ دونوں ممالک نے فوری طور پر اس کی سختی سے مخالفت کی۔ اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے کہا، “یہ تجویز ہماری پالیسی کے خلاف ہے اور ہم اسے سختی سے مسترد کرتے ہیں۔” مصر نے بھی اس تجویز کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ اس سے علاقے میں مزید بحران پیدا ہو سکتا ہے اور امن کے امکانات متاثر ہو سکتے ہیں۔
حماس اور فلسطینی اتھارٹی نے بھی اس تجویز کی شدید مذمت کی۔ ان کے مطابق، یہ ایک نیا “نسل کشی” کا منصوبہ ہو سکتا ہے جو فلسطینیوں کی شناخت اور ان کی موجودگی کو خطرے میں ڈالے گا۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے بھی اس تجویز کو “نسل کشی” قرار دیا ہے اور کہا کہ یہ فلسطینیوں کے حقوق کی سنگین پامالی ہوگی۔
مصر اور اردن کے حکام نے اس تجویز کے اثرات پر بھی بات کی۔ مصر نے خبردار کیا کہ اگر فلسطینیوں کی بڑی تعداد کو اس کی سرحدوں میں پناہ دی گئی تو اس سے نہ صرف اسرائیل کے ساتھ اس کے امن معاہدے کو خطرہ لاحق ہو گا بلکہ پورے علاقے میں استحکام کو بھی نقصان پہنچے گا۔

اردن بھی اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ اس کا ملک پہلے ہی لاکھوں فلسطینی مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے، اور کسی مزید فلسطینیوں کو اپنے علاقے میں بسانا اس کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
اس تجویز کی حقیقت میں تبدیلی اور اس کے اثرات پر تمام نگاہیں مرکوز ہیں۔ فلسطینیوں کا موقف یہ ہے کہ اگر انہیں اس طریقے سے بے گھر کیا گیا، تو وہ کبھی اپنے وطن واپس نہیں جا پائیں گے، اور یہ ان کی آزادی اور شناخت کے لیے ایک سنگین دھچکا ہوگا۔ فلسطینی معاشرت میں اپنی زمین سے جڑے رہنے کی گہری روایت ہے، جو غزہ کی ان ویران گلیوں میں دکھائی دیتی ہے جہاں لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں کی تباہی کے باوجود واپسی کے لیے مصر و اردن کی سرحدوں پر پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس تمام منظرنامے میں اسرائیل کی خاموشی اہمیت رکھتی ہے، جو ابھی تک اس تجویز پر کوئی باضابطہ ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ تاہم، اسرائیل کے وزیر مالیات بزیلیل اسمتریچ نے اس تجویز کو “عظیم خیال” قرار دیا ہے، جو کہ غزہ میں فلسطینیوں کے مستقل یا عارضی اخراج کو ایک عملی حقیقت بنا سکتا ہے۔ اس بات نے اس تجویز کے پیچیدہ سیاسی کردار کو مزید واضح کر دیا ہے، جس میں ایک طرف فلسطینیوں کا مستقبل، دوسری طرف اسرائیل کا مفاد اور تیسرے نمبر پر عرب دنیا کا استحکام داؤ پر لگا ہے۔
اب یہ دیکھنا ہوگا کہ عالمی برادری اور خطے کے ممالک اس تجویز کے ردعمل میں کس طرح کی حکمت عملی اپناتے ہیں۔ یہ کہانی ختم ہونے سے بہت دور ہے، اور اس کے کئی سیاسی، سماجی، اور انسانی اثرات مرتب ہوں گے۔