یوکرین اور روس کے درمیان جاری اس تصادم میں بے گناہ افراد کی جانیں جا رہی ہیں، جبکہ عالمی معیشت اور سیاست بھی اس بحران سے متاثر ہو رہی ہے۔
اس جنگ کی شدت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، اور عالمی امن کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے۔
روس اور یوکرین کے درمیان جنگ میں ایک نیا اور تشویشناک موڑ آ چکا ہے جب روس کی فوج نے یوکرین کے مشرقی علاقوں میں حملے تیز کر دیے ہیں۔
روسی توپوں کی گھن گرج سے یوکرین کے شہر پوکروفک میں ایک خاتون کی ہلاکت اور کئی افراد کے زخمی ہونے کی خبریں آئی ہیں۔

یہی نہیں، بلکہ روسی افواج نے یوکرین کے دفاعی مورچوں کو مسلسل 38 مرتبہ توپ خانے سے نشانہ بنایا ہےجو کہ یوکرین کی سلامتی کے لیے ایک شدید خطرہ بن چکا ہے۔
یورپی اور عالمی میڈیا میں ایک اور سنسنی خیز خبر نے ہلچل مچادی جب یوکرین کی فوج نے روس کی ریاضان آئل ریفائنری پر اپنے حملے کا دوسرا راؤنڈ شروع کیا۔

یہ ریفائنری روس کی سب سے بڑی آئل ریفائنریوں میں سے ایک ہے اور اس پر یوکرین کی جانب سے مسلسل حملے روس کے معاشی نظام کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں۔
اسی دوران یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے مشرقی یوکرین کے دفاع کے لیے اپنے کمانڈر کا تیسری بار تبادلہ کیا ہے۔
پوکروفک کے دفاع کے ذمہ دار کمانڈر میجر جنرل میخائیلو ڈراپاتی کو نئی ذمہ داری سونپی گئی ہے کیونکہ شہر روسی افواج کے حملے کے لیے ایک اہم ہدف بن چکا ہے۔
اسی دوران عالمی سیاست میں بھی اہم موڑ آیا ہے جب یوکرین کے صدر زیلنسکی نے مولڈووا کے صدر مایا سانڈو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں ایک پیشکش کی۔
انہوں نے کہا کہ اگر ٹرانسنیسٹریا یوکرین کو بجلی فراہم کرے تو یوکرین اس علاقے کو سستے یا مفت نرخوں پر کوئلہ فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔
یہ ایک نیا سیاسی اقدام ہے جس سے یوکرین اور مولڈووا کے تعلقات میں گہرائی آ سکتی ہے۔
عالمی سطح پر بھی روس کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوششیں جاری ہیں۔
اطلاعات کے مطابق روسی ٹیلی گرام چینل “ریبار” کے ارکان نے حالیہ دنوں میں عراق کا دورہ کیا جہاں انہوں نے عراقی حکام کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔
یہ اقدام روس کے عالمی اثر و رسوخ کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اس دوران پولینڈ کے صدر آندریج دودا نے عالمی سطح پر ایک اہم بیان دیا ہے۔

انہوں نے نیٹو کے ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے دفاعی اخراجات میں کم از کم 3 فیصد اضافہ کریں تاکہ ‘روس کی سامراجی خواہشات’ کا مقابلہ کیا جا سکے۔
یہ بیان روس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف عالمی سطح پر ایک مضبوط ردعمل کا غماز ہے۔
دوسری جنانب بلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشنکو نے اپنے ملک کے انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کی ہےجس کے نتیجے میں وہ اپنی حکمرانی کو مزید مستحکم کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
صدر لوکاشنکو نے کہا کہ انہیں روس کو اپنے علاقے سے یوکرین پر حملہ کرنے کی اجازت دینے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے جو کہ ایک اور سنگین عالمی پیغام ہے۔
اس کے علاوہ ایک دل دہلا دینے والی حقیقت یہ ہے کہ یوکرین کی سرزمین پر ہر گزرتے دن کے ساتھ جنگ کی شدت بڑھتی جا رہی ہے اور روسی افواج یوکرین کے دفاعی مورچوں کو مسلسل نشانہ بنا رہی ہیں۔
ایسے میں یوکرین کی طرف سے جوابی کارروائیاں بھی جاری ہیں جو عالمی سیاست اور جنگی حکمت عملی کے حوالے سے ایک نئے باب کا آغاز کر رہی ہیں۔

اس بحران کو روکنے کے لیے عالمی برادری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ فوری طور پر ٹھوس اقدامات کرے۔
اقوام متحدہ کو اپنے کردار کو فعال کرتے ہوئے دونوں فریقوں کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے اور عالمی سطح پر جنگ بندی کے لیے موثر حکمت عملی اپنانی چاہیے۔
اقوام متحدہ کو یوکرین میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا سدباب کرنے اور جنگ کے اثرات کو کم کرنے کے لیے عالمی تعاون کو فروغ دینا ہوگا تاکہ اس تنازعہ کو کسی منصفانہ حل کی طرف لے جایا جا سکے۔