وزیراعظم پاکستان نے پچھلے ہفتے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن سے ملاقات کی اور یقین دلایا کہ پاکستان ان کی رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا۔ اس تناظر اور وزیراعظم کی جانب سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جو عافیہ صدیقی کی رہائی کے معاملات دیکھے گی۔
اگلے ہی دن نائب وزیراعظم پاکستان اسحاق ڈار نے امریکا میں انٹرویو دیتے ہوئے یہ الفاظ ادا کیے کہ عافیہ صدیقی کو ہونے والی سزا بالکل درست اور باقاعدہ پراسس کے بعد ہوئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی حکومت اس معاملے پر کام کرتے ہوئے ان کی رہائی کا بندوست کرے گی؟
تاریخی پس منظر بتاتا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی جنہیں نیوروسائنسدان قرار دیا جاتا ہے، 2003ء میں پاکستان سے اغوا ہوئیں، امریکا لے جایا گیا اور 2010ء میں انھیں افغانستان میں امریکی اہلکاروں پر حملے کی کوشش کے الزام میں 86 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
اس کیس نے پاکستان میں ایک علامتی تشخص اختیار کیا، ہزاروں لوگ سراپا احتجاج ہو گئے، سنیماوڑ فلیگ اور سلیکون کی طرح ان کی رہائی کے حق میں نعرے لگے۔
گزشتہ برسوں میں ہر حکومت نے اس کیس کا وعدہ کیا لیکن عمل قدم نہ اٹھایا۔ 2010 اور 2014 میں مختلف گروپس نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے بدلے مغوی افراد کے بدلے میں مطالبات کیے مگر امریکا نے ہر بار ان کایا سرپرائز چھین لیا۔
مارچ 2024 میں وفاقی وزیر خارجہ اور نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے اعلان کیا کہ پاکستان اس معاملے کو امریکی انتظامیہ کے سامنے ایک بار پھر اٹھائے گا، حکومتی ترجمان نے واضح کیا کہ امریکا کے ساتھ تعاون جاری ہے مگر بدقسمتی سے جواب نہیں ملا۔

فروری 2025 میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے دوران وفاقی حکومت نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ کے بدلے شکیل آفریدی کو امریکا کے حوالے کرنے کا تبادلہ ممکن نہیں کیونکہ دونوں پاکستانی شہری ہیں، اور امریکا کے ساتھ اس طرح کا کوئی معاہدہ بھی نہیں ۔
عدالت نے سختی سے حکومت پر تنقید کی اور پوچھا کہ خط لکھا کب گیا، جواب کیوں نہیں دیا گیا اور اگلی سماعت پر تفصیلی جواب طلب کیا گیا۔
حال ہی میں 2025 کے جولائی میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت کو انتباہ دیا کہ اگر اس نے عافیہ صدیقی کے کیس میں پیشرفت رپورٹ نہ جمع کروائی تو وزیر اعظم سمیت پورے کابینہ کو عدالت طلب کیا جائے گا یا تو بیگم فاطمہ صدیقی کے وکیل تمام وزراء کے خلاف توہین عدالت کی درخواست لے کر آئیں گے۔
پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے ماہر بین الاقوامی تعلقات، ڈاکٹر پرویز الحسن کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کا کیس نہ صرف انسانی حقوق کا معاملہ ہے بلکہ پاکستان کی سفارتی حکمت عملی کا امتحان بھی ہے، جب کوئی مسلم ریاست امریکی ریاست سے اپنا شہری واپس لانے کی درخواست کرتی ہے تو اسے شفاف اور مضبوط سفارتی لائحہ عمل کے ساتھ پیش کرنا پڑتا ہے، قانونی فریم ورک اور امریکی عدلیہ میں طویل کیسز کو سمجھتے ہوئے بھی یہ ممکن ہے کہ اگر کوئی امریکی ریاستی مفاد سامنے آتا یا کوئی تجارتی یا سیکورٹی لیوریج ملتا تو بات آگے بڑھ سکتی تھی۔
پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار سعدیہ محمودکہتی ہیں کہ اس کیس کا حل صرف سفارتی خطوط یا عدالت کی پانروٹنگ سے حاصل نہیں ہو گا، ضروری ہے کہ پاکستان اپنی بین الاقوامی ساکھ مضبوط کرے، پبلک ڈپلومیسی کے جمعے کو رول آؤٹ کرے، عوامی مہم چلائے، میڈیا کو استعمال کرے، پٹیشنز نامی مہم کو عالمی سطح پر لے جائے تاکہ دباؤ بڑھے اور امریکا پر اخلاقی دباؤ پڑے۔
اگر صرف صدارتی معافی کا انتظار کیا گیا تو امریکی اندرونی سیاست کے جھولے میں یہ معاملہ ہمیشہ التوا کا شکار رہے گا۔

پاکستان میٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے حقوقِ انسانی کی سماجی کارکن بشریٰ یاسین نے کہا یہ کیس صرف ایک فرد کی سزا کا نہیں بلکہ پاکستان کی قومی عزت کا معاملہ ہے، عافیہ صدیقی کی ماں بیٹی کی جدائی کا داغ، انسانی بنیادوں پر انصاف کے فقدان کی تصویر، اگر حکومت اس کی حکومتداری میں ناکام رہی تو آئندہ ہر شہری کے سوال اٹھیں گے کہ کیا حکومت اپنے شہری کو انصاف دلانے کے لیے کھڑی رہتی ہے یا جھکتی ہے۔
یہ تمام آراء ایک مستقل مسئلے کی تصویر پیش کرتی ہیں جہاں عوام کے مطالبے، سفارتی کوششوں، عدالتی دباؤ اور اخلاقی دفاع کے امتزاج سے ہی کامیابی ممکن ہے۔ اگر حکومت اپنا موقف صرف حکومتی بیانیے تک محدود رکھے گی، یا صرف عدالت میں جواب جمع کروانے تک محدود ہو جائے گی، تو یہ معاملہ ایک سیاسی داستان بن کر رہ جائے گا۔
لیکن اگر اس نے عالمی عوامی اور قانونی دباؤ، سفارتی روابط اور حکمتِ عملی کا جامع نظام ترتیب دیا تو عافیہ صدیقی کی رہائی ممکن ہو سکتی ہے۔
آخر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان واقعی اس سفارتی رخ پر کامیاب ہو سکے گا یا اس کی سفارتی بیلنس کمزور پروٹوکول، اندرونی سیاسی الجھنوں اور امریکا کے اندرونی معاملات کے بدنما اثرات سے متاثر ہو کر یہ معاملہ ٹھنڈا پڑ جائے گا؟ وقت بتائے گا۔
لیکن ایک بات واضح ہے کہ عوام کا مطالبہ صرف ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک سماجی اور اخلاقی امتحان ہے، جو حکومت کو یا تو روشن کرے گا یا اس کے لیے ایک سیاہ باب بن جائے گا۔