Follw Us on:

عمران خان کی غیر موجودگی میں سیاست کا نقشہ کیسے بدلا؟

مادھو لعل
مادھو لعل
Whatsapp image 2025 08 04 at 11.59.38 pm (1)
نو مئی 2023 کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں شدید ردعمل دیکھنے کو ملا۔ (فوٹو: فائل)

قیامِ پاکستان کے فوراً بعد سے ہی ملک سیاسی کشمکش کا شکار ہوگیا، ملکی عدم استحکام کا ایک ایسا سلسلہ چلا، جس سے جمہوریت اور آمریت دونوں کو ہی ملکی اختیارات مل گئے۔ سیاسی تاریخ میں کئی اتار چڑھاؤ دیکھے گئے، مگر نو مئی 2023 اور اس کے بعد کی صورتحال کو ملکی سیاست میں ایک فیصلہ کن موڑ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی و سابق چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد شروع ہونے والے احتجاج، گرفتاریوں، عدالتی کارروائیوں، سزاؤں، نااہلیوں اور قیادت کی عدم موجودگی نے ملک کی پارلیمانی و عوامی سیاست کا منظرنامہ یکسر تبدیل کر دیا۔ ان تمام حالات نے نہ صرف پی ٹی آئی کی تنظیمی طاقت کو متاثر کیا بلکہ ملکی جمہوریت، عدالتی نظام اور ریاستی اداروں کے توازن کو بھی کھلا چیلنج دیا اور ان پر کئی سوالات اٹھائے۔

نو مئی 2023 کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں شدید ردعمل دیکھنے کو ملا۔ مظاہرے، سرکاری املاک پر حملے اور عسکری تنصیبات کو نقصان پہنچنے کے واقعات سامنے آئے، جگہ جگہ غداری کے آثار نظر آنے لگے۔

ان مظاہروں کے نتیجے میں ریاست نے بھرپور ایکشن لیتے ہوئے سیکڑوں کارکنوں، رہنماؤں اور سابق اراکین اسمبلی کو گرفتار کیا۔ دہشت گردی کے مقدمات، فوجی عدالتوں میں ٹرائل اور تیز ترین سزاؤں کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد عمران خان کی طویل گرفتاری اور پی ٹی آئی پر عملاً سیاسی پابندیاں لگ گئیں۔

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی سلمان غنی کا کہنا تھا کہ عدم اعتماد ایک خالصاً آئینی عمل تھا، جس کا پی ٹی آئی کو سامنا کرنا چاہیے تھا، اگر یہ سامنا کرتے تو شہباز شریف وزیرِاعظم بنتے اور یہ اپوزیشن میں موجود ہوتے۔عمران خان نرگسیت کا شکار تھے، آج وہ جیل میں اپنی پالیسیوں کی وجہ سے بیٹھے ہیں۔

عمران خان نہ صرف پارٹی کے بانی اور سربراہ تھے بلکہ ان کی شخصیت ہی پی ٹی آئی کی مرکزی قوت تھی۔ ان کی عدم موجودگی میں پی ٹی آئی کو عوامی سطح پر پذیرائی قائم رکھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ دیگر سینئر رہنماؤں جیسے شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری، علی امین گنڈاپور، اسد عمر، بیرسٹر گوہر علی خان اور پرویز خٹک وغیرہ نے مختلف اوقات میں قیادت سنبھالنے کی کوشش کی، مگر عمران خان کی قیادت کی خلا مکمل نہ ہو سکی۔

Imran khan
عدم اعتماد ایک خالصاً آئینی عمل تھا۔ (فوٹو: گوگل)

نو مئی کے واقعات کے بعد انسداد دہشتگردی کی عدالتوں اور دیگر عدالتوں نے پی ٹی آئی کے خلاف فیصلے سنانے کا سلسلہ تیز کر دیا۔ خالد قیوم، ریاض حسین، علی حسن، افضال عظیم پاہٹ سمیت کئی رہنماؤں کو 10، 10 سال کی سزائیں سنائی گئیں۔

پی ٹی آئی کے مطابق اب تک 14 اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو سزائیں ہو چکی ہیں، جنھیں یا تو نااہل قرار دیا گیا یا نااہلی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فواد چوہدری، زین قریشی اور عبداللہ دمڑ کو عدالتوں نے بری بھی کیا ہے۔ مگر مجموعی طور پر یہ عمل پی ٹی آئی کی پارلیمانی قوت کو شدید متاثر کر چکا ہے۔

سزا یافتہ اور نااہل قرار دیے گئے اراکین کی غیر موجودگی میں پی ٹی آئی پارلیمنٹ کے اندر شدید کمزور ہو چکی ہے۔ پنجاب، خیبرپختونخوا اور قومی اسمبلی میں پارٹی کی نمائندگی برائے نام رہ گئی ہے۔ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے موجودہ قائدین کو بھی سزاؤں کا سامنا ہے، جس نے ایوان میں مؤثر کردار ادا کرنے کی راہ مسدود کر دی ہے۔ ایسے حالات میں پارلیمانی جمہوریت کی روح کو دھچکہ پہنچا ہے۔

سینئر صحافی سلمان غنی نے دعویٰ کیا کہ اپوزیشن کے ایک ذمہ دار ان کے ایک دوست نے کہا ہے کہ ہم لوگ بانی پی ٹی آئی سے کہتے ہیں کہ تحریک چلانی ہے اور وہ چور دروازہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ وہ اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کے لیے مرے جارہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ رستہ وہیں سے نکلے گا۔

پی ٹی آئی کے سیاسی قائدین دھڑلوں میں بٹ گئے ہیں، آپسی رنجش اور پارٹی کی قیادت کرنے کی چاہت نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔ شیر افضل مروت اور سلمان اکرم راجہ و علیمہ خان کے درمیان چلنے والی سیاسی رنجش نے پارٹی کارکنوں کو آپس میں تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔

سماجی رابطے کی سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر شیر افضل مروت نے پارٹی کارکنوں کے نام پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ علیمہ خان نے پارٹی کو نو مئی جیسے حالات سے دوچار کیا، میں خان صاحب کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہوں، مگر مجھے عوام اور خود کے درمیان کوئی مداخلت نہیں چاہیے، جیسے نو مئی کے بعد میں نے احتجاج کی قیادت کی۔

رکن قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ مجھے پورے پاکستان میں عوام کو متحرک کرنے کے لیے کم از کم ایک ماہ درکار ہے، اس لیے احتجاج کو نئی تاریخ دینی ہوگی۔ پارٹی میرے ساتھ کی گئی ناانصافی اور بے عزتی پر معافی مانگے، علیمہ خان، سلمان راجہ سمیت سازشی گروہ کو نکالے۔ میرے مطالبات بلند اور واضح ہیں۔ کارکن پی ٹی آئی پر دباؤ ڈالیں کہ علیمہ خان اور راجہ کو فوری نکالے۔ اگر میں ناکام ہوا تو ہمیشہ کے لیے سیاست سے غائب ہو جاؤں گا۔

شیر افضل مروت کے اس بیان نے جہاں پارٹی کارکنوں کو آپس میں تقسیم کردیا ہے، وہیں سیاسی و عوامی حلقوں میں بھی یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کیا بانی پی ٹی آئی کے بغیر پارٹی کا کوئی مستقبل نہیں؟ ایسے وقت میں جب بانی پی ٹی آئی گزشتہ دو برس سے جیل میں ہیں پی ٹی آئی قیادت محض اختیارات کے مزے لوٹنے کے چکروں میں ہے؟ اور کیا وجہ ہے کہ عوام کے زبردست احتجاج اور مظاہروں کے باوجود بانی پی ٹی آئی پر لگے کیسز کے ٹرائل ہی چل رہے ہیں اور فیصلے کیوں نہیں ہوپارہے؟

سینئر تجزیہ کار مظہر عباس کے مطابق یہ صرف پی ٹی آئی کا بحران نہیں بلکہ جمہوریت کا بحران ہے۔ اگر اپوزیشن کو اس طرح عدالتی فیصلوں کے ذریعے کمزور کر دیا جائے تو پارلیمان میں توازن باقی نہیں رہتا۔ ان کے مطابق یہ سلسلہ آگے چل کر ملک کو ایک پارٹی نظام کی طرف دھکیل سکتا ہے، جہاں کسی بھی تنقید یا مخالفت کی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔

بی بی سی اردو سے گفتگوکرتے ہوئے تجزیہ نگارمسرت قدیم نے اس صورتحال کو “جمہوریت کی سزا” قرار دیا اور کہا کہ جب اپوزیشن کا وجود ختم کیا جائے گا تو عوامی مسائل کون اٹھائے گا؟

پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے عدالتی فیصلوں کو سیاسی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان فیصلوں سے عدلیہ کی ساکھ پر سوال اٹھتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایسے رہنما بھی سزاؤں کی زد میں آئے ہیں، جو سیاست میں پرامن اور عدم تشدد کے حامی سمجھے جاتے ہیں۔ عدالتوں کا یہ رویہ نہ صرف سیاسی مخالفین کو نشانہ بنا رہا ہے بلکہ آئندہ کے لیے خطرناک روایت قائم کر رہا ہے۔

Barrister gohar ii
فیصلوں سے عدلیہ کی ساکھ پر سوال اٹھتے ہیں۔ (فوٹو: گوگل)

سلمان غنی کا کہنا تھا کہ جو لوگ بانی پی ٹی آئی کو اقتدار میں لائے، وہ انہیں ہی میر جعفر اور میر صادق کہتے رہے۔ وہ پاکستانی تاریخ کے پہلے سیاستدان ہیں، جنہوں نے خود اسمبلیاں توڑ دیں۔

دوسری جانب کچھ سیاسی رہنماؤں کی اچانک رہائی اور بریت کو شک کی نگاہ سے بھی دیکھا جا رہا ہے۔ تجزیہ نگار مسرت قدیم نے دعویٰ کیا ہے کہ بعض سیاسی ڈیلز اور پس پردہ یقین دہانیوں کے تحت بریت کا عمل ہوا، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ نظام میں شفافیت کی کمی ہے۔

پی ٹی آئی نے عمران خان کی غیر موجودگی میں دو سال تک پارٹی کو منظم رکھنے کی کوشش کی ہے، مگر اب جماعت بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ آئندہ دنوں میں کیا یہ جماعت مؤثر عوامی تحریک چلا پائے گی یا مکمل طور پر نظام سے باہر کر دی جائے گی، یہ سوال اب ہر سیاسی حلقے میں زیر بحث ہے۔

مظہر عباس کے مطابق اگر پی ٹی آئی سڑکوں پر عوامی طاقت نہ دکھا سکی تو پارلیمانی سیاست میں اس کی جگہ لینا مزید آسان ہو جائے گا اور حکومت یکطرفہ قانون سازی کے قابل ہو گی۔ مسرت قدیم نے بھی خبردار کیا کہ اتنی بڑی تعداد میں عوامی نمائندوں کو اسمبلی سے باہر نکالنا کسی طور جمہوری نہیں۔

اس کے برعکس  حکومت کا مؤقف بالکل مختلف ہے۔ وزیراطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے فیصل آباد کی عدالت سے آنے والے فیصلے کو “ملک و قوم کے لیے خوش آئند” قرار دیا اور کہا کہ ایسے فیصلے ریاستی اداروں کے خلاف منفی سوچ رکھنے والوں کے لیے پیغام ہیں کہ اب ایسی حرکتیں برداشت نہیں کی جائیں گی۔

عمران خان کی غیر موجودگی نے جہاں ملکی سیاست میں ایک خلا پیدا کر دیا ہے، وہیں پارٹی اور عوام میں دوریوں کو بھی بڑھا دیا ہے، جو نہ صرف اپوزیشن بلکہ خود نظام جمہوریت اور پی ٹی آئی کے لیے نقصان دہ ہے۔

آج اڈیالہ جیل کے باہر پی ٹی آئی کی جانب سے احتجاج کا اعلان کیا گیا ہے اور راولپنڈی میں انتظامیہ نے دفعہ 144 نافذ کررکھی ہے، کسی بھی شخص کو مظاہرے کی اجازت نہیں۔ اب ایسی صورتحال میں نتیجہ کیا نکلے گا؟ کیا یہ احتجاج کامیاب ہوگا؟ ان سوالات کے جواب تو اب وقت ہی بتائے گا، مگر ایک بات تو طے ہے کہ ملک کو اس وقت ایک ایسے حکمران اور لیڈر کی ضرورت ہے جو اسے غربت اور تنزلی سے نکال کر بلندیوں تک لے جائے۔

مادھو لعل

مادھو لعل

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس