بینک آف انگلینڈ نے سود کی شرح 4 فیصد کر دی ہے جس کے بعد قرض لینے کی لاگت دو سال سے زائد عرصے میں سب سے کم سطح پر پہنچ گئی ہے۔
یہ کمی گزشتہ شرح 4.25 فیصد سے کی گئی ہے اور اگست 2023 کے بعد سے پانچویں بار کی گئی ہے۔ تاہم اس فیصلے کی حمایت بینک کے پالیسی سازوں کے درمیان قریب سے کی گئی تھی جنہوں نے اس پر اتفاق کرنے کے لئے دو ووٹ کیے۔
سود کی شرح میں کمی سے کچھ گھریلو مالکان کے لئے ماہانہ رہن کے اخراجات کم ہو جائیں گے لیکن یہ بچت کرنے والوں کے لیے کم منافع کا باعث بن سکتا ہے۔
پالیسی سازوں کے درمیان ہونے والی دوسری ووٹنگ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مزید شرحوں میں کمی کا فیصلہ احتیاط سے کیا جائے گا کیونکہ قیمتوں میں اضافے کا خدشہ موجود ہے۔
تاہم بینک کے گورنر اینڈریو بیلی نے خبر رساں ایجنسی بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ سود کی شرحوں کا راستہ ‘نیچے’ کی طرف جاری رہے گا۔
بینک نے اپنی مونیٹری پالیسی رپورٹ میں کہا کہ افراط زر ستمبر میں چار فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے جو بینک کے دو فیصد ہدف سے دوگنا ہے اور مئی کی رپورٹ میں پیش گوئی کردہ 3.8 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔

تاہم اگرچہ افراط زر بینک کی خواہش سے زیادہ ہے اور عام طور پر یہ شرح میں کمی کا سبب نہیں بنتا ہے اور معیشت کی سست روی اور ملازمتوں کے حوالے سے خدشات کے پیش نظر یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔
اینڈریو بیلی کا کہنا ہے کہ سود کی شرح میں کمی احتیاط سے کی گئی تھی اور یہ کہ مستقبل میں شرحوں میں کمی بتدریج اور احتیاط سے کی جائے گی۔ مستقبل میں شرحوں میں کمی کا راستہ کچھ زیادہ غیر یقینی ہے۔
بینک نے یہ بھی بتایا کہ کاروباری اداروں نے انہیں بتایا کہ اپریل سے نیشنل انشورنس کی شراکتوں اور قومی کم از کم اجرت میں اضافے کے باعث خوراک کی قیمتوں میں دو فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ عالمی سطح پر موسمی حالات کے اثرات کے باعث بھی بیف کافی اور کوکو کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
علاوہ ازیں کاروباری اداروں نے بینک کو بتایا کہ انہیں توقع ہے کہ برطانیہ کی مزدور لاگت خوراک کی قیمتوں کو دوسرے نصف سال میں مزید بڑھائے گی اور اس کے نتیجے میں انہیں عملے کی تعداد میں کمی کرنی پڑی۔
اینڈریو بیلی نے مزید کہا کہ بینک یہ توقع نہیں کرتا کہ افراط زر کی شرح زیادہ عرصے تک برقرار رہے گی لیکن ہمیں اس پر بغض دیکھنے کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب برطانیہ میں روزگار کی صورتحال ‘کمزور’ ہو رہی ہے اور ڈیٹا سے ظاہر ہو رہا ہے کہ روزگار کی جگہوں میں کمی اور اجرتوں میں سست روی آ رہی ہے۔
بینک آف انگلینڈ کے گورنر نے کہا کہ وہ اس بات سے بہت آگاہ ہیں کہ افراط زر کی شرح زندگی کے اخراجات پر اثر ڈالتی ہے۔ خوراک خاص طور پر ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ سب سے کم آمدنی والے افراد کے لیے خوراک ان کے اخراجات کا ایک بڑا حصہ ہے کیونکہ یہ زندگی کی بنیادی ضرورت ہے اس لیے ہمیں اس پر بہت توجہ دینی ہوگی۔

چار فیصد کی شرح سود مارچ 2023 کے بعد سب سے کم سطح پر آ گئی ہے۔ اس سے کچھ رہن رکھنے والوں اور قرض لینے والوں کو فائدہ ہوگا لیکن یہ بچت کرنے والوں کے لئے کم منافع کا باعث بنے گا۔
وہ افراد جنہوں نے ٹریکنگ رہن لیا ہے جو قرض ہیں جو بینک کی بیس شرح کے ساتھ ملتے ہیں ان کی ماہانہ قسطوں میں فوری کمی ہوگی۔ ایسے تقریباً چھ لاکھ افراد ہیں۔
مالیاتی معلومات فراہم کرنے والی کمپنی ‘منی فیکٹس کے مطابق 25 سال کے لیے 250,000 پاؤنڈ کے ایک اوسط معیاری متغیر شرح رہن پر ماہانہ قسطوں میں 40 پاؤنڈ کی کمی آ جائے گی۔
واضع رہے کہ کئی گھریلو مالکان کو اس سال ایسے نرخوں پر دوبارہ رہن لینا پڑا ہے جو ان کے پچھلے معاہدوں سے زیادہ ہیں۔ ایڈم کرسٹی نے ابھی اپنے رہن کی شرح کو دوبارہ مقرر کیا ہے وہ 1.8 فیصد شرح والے پانچ سالہ فکسڈ معاہدے سے 3.8 فیصد کی شرح والے دو سالہ معاہدے پر منتقل ہو گئے ہیں۔
مزید پڑھیں: ’گرج چمک کے ساتھ تیز بارش‘، آج کا موسم کس شہر میں کیسا ہوگا؟
انہوں نے خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ یہ ایک نمایاں اضافہ تھا لیکن اتنا نہیں جتنا ہم نے ڈرا تھا۔ 200-300 پاؤنڈ تک ماہانہ اضافے کی توقع تھی لیکن ان کی قسطیں تقریباً 100 پاؤنڈ تک بڑھ گئی ہیں۔
یہ ایک برا معاملہ ہے لیکن ہم اسے ایک بدترین صورتحال کے بہترین طریقے سے دیکھ رہے ہیں ہم ابھی بھی مستقبل کے بارے میں تھوڑا سا بے چین ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ کیا ہوگا۔ وہ شاید دوبارہ بڑھ جائیں گے… لیکن ہم صرف وقت کے ساتھ ہی جان پائیں گے۔
بینک کے نو رکن پالیسی کمیٹی اس بات پر تقسیم تھی کہ شرح سود میں کمی کی جائے۔ چار ارکان نے اس میں کمی کی حمایت کی، چار نے اسے برقرار رکھنے کی حمایت کی اور ایک رکن، ایلن ٹیلر، نے سود کی شرح میں مزید کمی کی حمایت کی۔

کچھ ماہرین نے بینک کی نومبر میں ہونے والی میٹنگ میں مزید شرحوں میں کمی کی توقع کی تھی، لیکن اس تازہ ترین ووٹ کی سخت تقسیم نے کچھ تجزیہ کاروں کو شک میں ڈال دیا ہے کہ آیا ایسا ہوگا۔
ہارگریوز لینڈ ڈاؤن کی منی اینڈ مارکیٹس کی سربراہ سوسنہ اسٹریٹر نے کہا بینک آف انگلینڈ کے پالیسی ساز ابھی بھی انتہائی احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔
اگرچہ بینک نے کمی کرنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن سال کے آخر تک مزید کمی کے امکانات بہت کم ہیں، کپٹل اکنامکس کی ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو روث گریگوری نے کہا کہ بینک ابھی مزید کمی کرنے کے لئے جلدی میں نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پالیسی سازوں کی معیشت کے خطرات کے بارے میں تجزیے سے یہ امکان بڑھتا ہے کہ بینک اس سال مزید کمی کو چھوڑ دے گا۔
چانسلر ریشل ریوو نے کہا کہ اس کمی کا خیرمقدم کیا ہے، جس سے گھریلو مالکان اور کاروباری اداروں کے لئے رہن اور قرضوں کی لاگت کم ہونے میں مدد ملے گی۔
مزید پڑھیں: ملک کی معاشی ترقی کے لیے خواتین ہماری افرادی قوت کا حصہ ہیں، شہباز شریف
دوسری جانب، شیڈو چانسلر میل اسٹرائڈ نے کہا کہ شرح سود “زیادہ تیزی سے کم ہو رہی ہونی چاہیے تھی”، اور انہوں نے مزید کہا، “شرحیں اب صرف اس لیے کم ہو رہی ہیں تاکہ ریشل ریوو کے بنائے گئے کمزور معیشت کی حمایت کی جا سکے۔”
لبرل ڈیموکریٹ ٹریژری کی ترجمان ڈیزی کوپر نے کہا کہ یہ کمی “مہینوں پہلے ہو چکی ہوتی اگر حکومت ترقی میں رکاوٹ نہیں ڈال رہی ہوتی۔”
بینک نے اب توقع کی ہے کہ اپریل سے جون کے درمیان کی جی ڈی پی کی شرح نمو، جو اگلے ہفتے شائع ہونے والی ہے، صرف 0.1 فیصد تک سست ہو جائے گی، جب کہ اس سال کے پہلے تین مہینوں میں 0.7 فیصد کی ترقی ہوئی تھی۔ اس نے یہ بھی کہا کہ امریکی محصولات کے برطانیہ پر اثرات اتنے زیادہ نہیں ہوں گے جتنا کہ مئی میں توقع کی گئی تھی۔
تاہم، محصولات کے اثرات معیشت کی نمو کو 0.2 فیصد تک کم کر دیں گے۔