اگلی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا آغاز تقریباً آٹھ سے نو ماہ بعد ہوگا۔ اس چیمپئن شپ میں جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم گراؤنڈ پر پاکستان کرکٹ ٹیم ابتدائی سیریز کا سامنا کرے گی۔ یہ سیریز قومی کرکٹ ٹیم کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہو گی کیونکہ چیمپئن شپ کا آغاز اس سے ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی اسی سیریز سے پاکستانی کرکٹ کے مستقبل کا راستہ بھی متعین ہوگا، مگر دوسری جانب اس چیمپئن شپ میں قومی ٹیم کی کپتانی کو لے کرکپتان شان مسعود کی قیادت پر سوالات اُٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔
حال ہی میں اسپورٹس جرنلسٹ وحید خان نے نجی ٹی وی پر اپنے تجزیے میں شان مسعود کی کپتانی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ ممکنہ طور پر وہ اگلے دور میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان نہیں ہوں گے۔ سینیئر صحافی کا کہنا تھا کہ شان مسعود کی کپتانی میں کئی خامیاں اور فیصلوں میں غیر یقینی صورتحال دکھائی دی ہے، جن کی وجہ سے ان کی قیادت پر سوالات اٹھتے ہیں۔

وحید خان نے اپنے تجزیے میں فیلڈ سیٹنگ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شان مسعود نے اس معاملے میں عدم اختیار کا مظاہرہ کیا اور کھلاڑیوں کو اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرنے کی آزادی دی۔ ان کا کہنا تھا کہ جس کا دل کرتا تھا وہ اپنی مرضی سے فیلڈ سیٹنگ کر رہا تھا، ایسا لگتا تھا کہ شان مسعود کی اتھارٹی نہیں ہے اور کھلاڑیوں پر ان کا کنٹرول نہیں تھا۔ یہ ایک واضح اشارہ تھا کہ کپتان کے فیصلوں میں سختی اور وضاحت کی کمی ہے۔
اسی طرح ریویو لینے کے فیصلوں کے حوالے سے بھی اسپورٹس جرنلسٹ نےشان مسعود کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے واضح کیا کہ بعض اوقات شان مسعود کے فیصلے اس بات کا تاثر دیتے تھے کہ وہ صحیح فیصلے کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
انہوں نے آسٹریلیا کے کپتان پیٹ کمنز کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ کمنز نے ہمیشہ ریویو لینے میں بروقت اور مستحکم فیصلے کیے ہیں۔ وحید خان نے سوال کیا کہ کیا شان مسعود اس طرح کی مؤثر فیصلہ سازی کر سکتے ہیں؟ اس کے علاوہ شان مسعود کا قیادت میں کنٹرول کہاں ہے اور کیا وہ اس ذمہ داری کو بخوبی نبھا پائیں گے؟

وحید خان نے اپنے تجزیے میں مزید کہا کہ شان مسعود کے سابقہ میچوں میں کیے گئے کچھ فیصلے اس بات کا مظہر تھے کہ ان کی کپتانی میں پاکستان کی کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے۔ انہوں نے اپنی گفتگو کے دوران اس بات پر زور دیا کہ اس صورتحال میں محمد رضوان کی قیادت ممکنہ طور پر پاکستان کے لیے بہتر ثابت ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر شان مسعود کی قیادت میں پاکستان کی پرفارمنس میں بہتری نہیں آتی تو پھر محمد رضوان کی قیادت کی طرف جانا ایک منطقی فیصلہ ہو گا۔
واضح رہے کہ محمد رضوان ایک تجربہ کار اور محنتی کھلاڑی ہیں، ان کی قائدانہ صلاحیتوں کو بہت سراہا گیا ہے۔ ان کی پرفارمنس اور لیڈرشپ کی مہارت کو دیکھتے ہوئے یہ توقع کی جارہی ہے کہ وہ اگلی سیریز میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان کے طور پر سامنے آئیں گے اور ٹیم کی کارکردگی میں بہتری لائیں گے۔ اس وقت محمد رضوان ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی میں قومی ٹیم کی رہنمائی کررہے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے یہ لمحہ فیصلہ کن ہوگا، کیونکہ اگلی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ میں شمولیت کے لیے ٹیم کو مضبوط قیادت اور پرفارمنس کی ضرورت ہے۔ اگر محمد رضوان کو قیادت سونپی جاتی ہے تو ان کی موجودگی پاکستانی ٹیم کی پرفارمنس میں ایک نئی روح پھونک سکتی ہے اور یہ سیریز ان کے کیریئر کا ایک سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔

یاد رہے کہ 2023 سے 2025 کے ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے دوران گرین شرٹس نے 14 میچز میں سے صرف 5 میچز جیتے جبکہ باقی میچز میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ 2015 سے 2025 تک پاکستان کا ریکارڈ مسلسل ناقص رہا ہے۔ 2015 کے بعد سے اب تک قومی ٹیم نے 40 فیصد ٹیسٹ میچز جیتےہیں۔
قومی ٹیسٹ ٹیم کے کپتان شان مسعود نے اب تک 12 ٹیسٹ میچز میں پاکستان کی قیادت کی ہے،جس میں قومی ٹیم کو 9 ٹیسٹ میچز میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا، جب کہ تین ٹیسٹ سیریز میں پاکستان کو کلین سویپ کی رسوائی برداشت کرنا پڑی۔ اس کے علاوہ ستمبر 2024کو شان مسعود کی کپتانی میں پاکستانی کو تاریخ میں پہلی بار بنگلہ دیش سے ہوم سیریز میں 2 ٹیسٹ میچز کی سیریز میں وائٹ واش کی خفت برداشت کرنا پڑی۔ اس سیریز میں بنگلہ دیش نے ٹیسٹ کرکٹ میں پہلی بار پاکستان کو 2 میچوں کی سیریز میں کلین سوئپ کر کے تاریخ رقم کی۔
موجودہ وقت میں پاکستان کرکٹ کا مستقبل ایک نیا رخ اختیار کرتا دکھائی دے رہا ہے، جہاں قیادت کی تبدیلی اور اس کے اثرات پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والی ٹیسٹ چیمپئن شپ کے لیے کیا پی سی بی نئے کپتان کا انتخاب کرتی ہے جو ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی تقدیر بدلتا ہے یا پھر شان مسعود کی صلاحیتوں میں نکھار لاکر اسے ایک اور موقع دیا جاتا ہے۔