آسٹریلوی وزیراعظم انتھونی البانیز نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ غزہ کی انسانی صورتحال سے انکار کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔
وزیراعظم البانیز نے پیر کے روز اعلان کیا کہ آسٹریلیا آئندہ ماہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرے گا۔ اس فیصلے کو اسرائیل پر بین الاقوامی دباؤ میں اضافے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، خاص طور پر جب فرانس، برطانیہ اور کینیڈا پہلے ہی ایسی ہی پوزیشن لے چکے ہیں۔
البانیز نے منگل کو آسٹریلوی نشریاتی ادارے اے بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ انہوں نے جمعرات کو نیتن یاہو سے فون پر بات کی، جس دوران اسرائیلی وزیراعظم نے وہی باتیں دہرائیں جو وہ عوامی سطح پر بھی کہتے آئے ہیں اور وہ غزہ میں معصوم شہریوں کے حالات سے چشم پوشی کر رہے ہیں۔
البانیز کا کہنا تھا کہ فلسطینی ریاست کی تسلیم کا فیصلہ کچھ شرائط سے مشروط ہے، جن میں سب سے اہم شرط یہ ہے کہ حماس کا مستقبل کی فلسطینی ریاست میں کوئی کردار نہیں ہوگا۔

دوسری جانب اپوزیشن لیڈر سوسن لی نے حکومت کے اس فیصلے کو امریکا کے ساتھ تعلقات کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ آسٹریلیا کی پرانی دوطرفہ پالیسی سے انحراف ہے۔ ہم کبھی یہ قدم نہ اٹھاتے کیونکہ ہمارے اصولوں کے مطابق فلسطینی ریاست کی تسلیم امن عمل کے اختتام پر ہونی چاہیے۔
رواں ماہ سڈنی کے ہاربر برج پر ہزاروں افراد نے مارچ کیا اور غزہ میں امداد کی فراہمی کا مطالبہ کیا۔بین الاقوامی تعلقات کی ماہر ڈاکٹر جیسیکا جینور کا کہنا ہےکہ یہ فیصلہ عوامی دباؤ کے نتیجے میں سامنے آیا ہے، جو اب واضح طور پر انسانی بحران کے فوری خاتمے کے حق میں ہے۔
ادھر ہمسایہ ملک نیوزی لینڈ نے کہا ہے کہ وہ بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر غور کر رہا ہے۔ تاہم، اس میں تاخیر پر سابق وزیراعظم ہیلی کلارک نے تنقید کرتے ہوئے کہاکہ یہ تباہ کن صورتحال ہے اور ہم اب بھی صرف اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے یا نہیں۔