بارش کے قطروں سے شروع ہونے والی زندگی کب موت میں بدل جاتی ہے، کوئی اندازہ نہیں ہوتا۔ لیکن جب یہ قطرے اپنے وجود میں سیلاب بن کر بہنے لگیں، تو انسان کی آہ و فریاد اس سڑک کنارے بہتے پانی کی طرح بے اثر محسوس ہوتی ہے۔
آج کل خیبرپختونخوا میں کلاؤڈ برسٹنگ سے پھر ایک بار وہی داستان دہرا رہی ہے۔ بارش، سیلاب، تباہی اور پھر اسی چراغِ امید کو دوبارہ جلانا، جس نے کئی سوالات کے ساتھ ساتھ عوامی تشویش کو بھی جنم دیا ہے۔
گزشتہ ہفتے جب آسمان نے اچانک شور مچایا اور بادل ٹوٹنے لگے، تو لگتا تھا کہ یہ قدرت کی طرف سے ایک قدرتی انعام ہے۔ لیکن کیا پتہ تھا کہ یہ انعام ہمارے لیے زہر ثابت ہوگا؟ کلاؤڈ برسٹنگ، یعنی بادلوں کے ساتھ بارش کا ایسا غیر متوقع اور شدید سلسلہ کہ ندی نالے اور ڈیم چند لمحوں میں پانی سے بھر جائیں اور انسان بے بس ہو کر پانی کو راستہ دے، یہ خطرناک رجحان اب کے پی میں تقریباً روزمرہ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
ماہر موسمیات نورین حیدر کہتی ہیں کہ حالیہ بارشوں کو فوری طور پر موسمیاتی تبدیلی کا شاخسانہ قرار دینا درست نہیں ہو گا۔ پاکستان میں مون سون بارشیں ہمیشہ سے ایک معمول رہی ہیں اور اس سال بھی ان بارشوں کی شدت اور انداز کچھ ایسا مختلف نہیں جسے غیرمعمولی کہا جا سکے۔ موسمیاتی تبدیلی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث نمی میں اضافہ کرتی ہے، جس سے بارشیں نسبتاً زیادہ ہوتی ہیں، مگر یہ تبدیلیاں فی الحال غیرمعمولی نوعیت کی قرار دینے کے لئے کافی نہیں۔
خیبرپختونخوا کے لوگوں کے دلوں پر ایک سانحہ آج بھی نقش ہے اور وہ سوات سیلاب کا واقعہ، جو 2010 میں ہوا، جب سوات وادی کو سیلاب نے لپیٹ میں لیا، تب نہ صرف سینکڑوں لوگ اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے بلکہ زرعی زمینیں، پل، سڑکیں، اسکول، ہسپتال، ہر چیز پانی میں دھنس گئی۔
حیرت انگیز طور پر اس حادثے نے ہمیں یہ سبق بھی سکھایا کہ قدرت سے نبرد آزما ہونا اس وقت تک کیفایت مند ہے، جب تک ہم خود اپنے دفاع کو منظم کریں، لیکن جب حفاظت کی کمی ہو تو گہرے زخم ہیں، جو دماغ میں اور دل میں دیرپا نقش چھو جاتے ہیں۔

گزشتہ پانچ برسوں میں کے پی میں کلاؤڈ برسٹنگ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر، پشاور، ہزارہ ڈویژن، دیر اور مالاکنڈ جیسے اضلاع میں بارش اور سیلاب نے متعدد مرتبہ تباہی مچائی ہے۔ عوامی سطح پر ایک سوال گھوم رہا ہے کہ کیا حکومت اور متعلقہ ادارے ہماری سکیورٹی کے لیے کچھ نہیں کر رہے؟
گزشتہ روز صبح پشاور کے کچھ نواحی علاقے اچانک پانی میں ڈوب گئے۔ لوگ اپنی روزمرہ کی مصروفیات میں مصروف تھے کہ اچانک برستی بارش نے سب کچھ بدل دیا۔ ندی کا پانی ایک منٹ میں خطرناک حد تک بڑھ گیا۔ کئی مکانات زیرِ آب آ گئے۔ لوگ اپنی گاڑیاں سڑک پر چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ چند گھنٹوں میں، سڑکیں ندی نما راستوں میں تبدیل ہو گئیں اور ہر طرف خوف و ہراس پھیل گیا۔
وزیرِاعلیٰ پنجاب مریم نواز کا کہنا تھا کہ مشکل کی اس گھڑی میں پنجاب حکومت کے تمام وسائل خیبرپختونخوا حکومت اور عوام کے لیے دستیاب ہیں۔ اہل پنجاب اپنے خیبرپختونخوا کے بھائیوں اور بہنوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔
وفاقی وزیرِاطلاعات و نشریات عطاءاللہ تارڑ نے اس حادثے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِاعظم شہباز شریف نے آزاد کشمیر اور کیبرپختونخوا میں امدادی کارروائی تیز کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔ وہ سیلابی صورتحال سے مکمل طور پر آگاہ ہیں۔ انہوں نے این ڈی ایم اے کا دورہ کرکے اقدامات کا جائزہ لیا ہے۔ مزید یہ کہ وزیرِاعظم ہاؤس میں خصوصی سیل بھی قائم کیا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں حالیہ بارشوں، بادل پھٹنے، سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے باعث 200 سے زائد افراد جان سے گئے اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ جاں بحق ہونے والوں میں تقریباً 155 مرد، 13 خواتین اور 17 بچے شامل ہیں۔
اسی بھاگ دوڑ میں ایک گھر کی کہانی سب سے زیادہ دل دہلا گئی۔ دو بچوں کی ماں بیوہ ثناء، جس نے اپنا خالی ہاتھ دیکھ کر خود سے پوچھا کہ یہ پانی کب روکے گا؟ اس نے جیسے زمانے کی آنکھوں سے بھری سانس لی،ایک گہرے دکھ کے ساتھ۔ اس کے گھر کا صحن، جہاں بچپن کے قہقہے گونجتے تھے، آج صرف ایک پانی بھری کھائی ہے۔ اس کا گھر، ایک بار پھر پانی نے نگل لیا، وہی بے بسی، وہی دھڑکنیں، جو پانی کے بہاؤ میں دب گئیں۔
حالیہ سیلابوں سے ہمیں یہ سبق ضرور ملا ہے کہ دریاوں، ندیوں کے قریب رہائشی علاقوں میں واٹر ڈائیورسنس یا محتاط تقاضے نہیں ہیں۔ پل، نالے، ڈیمز، سخت ترین بارش میں ان کے مضبوط ہونے کی ضمانت نہیں۔ کلاؤڈ برسٹنگ کی پیش گوئی ابھی بھی تقریباً خواب ہے۔ وسیع پیمانے پر ماڈل یا ٹیکنالوجی دستیاب نہیں۔

حکومت خیبرپختونخوا نے حال ہی میں سیلاب مینجمنٹ کی بہت سی اسکیمیں شروع کی ہیں، جیساکہ ندیوں اور نالوں کی صفائی، چھوٹے ڈیمز اور واٹر چینلز کی تعمیر، جی آئی ایس اور ریموٹ سینسنگ ٹیکنالوجی کے استعمال کا اعلان کیا گیا ہے لیکن عوامی حلقے مطمئن نہیں۔
اکثر لوگ کہتے ہیں کہ یہ اسکیمیں دفتری کاغذی کارروائی سے آگے نہیں جاتیں اور حقیقت میں زمینی حقائق سے لاتعلق رہتی ہیں۔
عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی نے ہمارے خطے میں بھی اپنی شدت دکھانا شروع کردی ہے۔ غیر متوقع اور شدید بارشیں اب معمول بن چکی ہیں، جس کا نتیجہ نامناسب ڈرینج سسٹمز اور ناکافی انفراسٹرکچر کے ساتھ مل کر تباہی کا سبب بنتا ہے۔ بے درختی، پہاڑی راستوں پر غیرقانونی تعمیرات اور ماحولیاتی نظام کی بے قدری، یہ تمام عوامل سیلاب کی شدت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔
پھر بھی کچھ مقامی کمیونٹیز نے خود سے صفائی مہمیں چلائیں۔ ندیوں کے کناروں پر درخت لگائے، اپنے علاقے میں آزمایشی روڈ سیل قائم کیا اور پانی کے بہاؤ کی نگرانی کے لیے سمارٹ سینسرز نصب کروائے۔ خاص طور پر سوات کے ایک گاؤں میں، جہاں سیلاب نے سب کچھ چھین لیا تھا، مقامی نوجوان ایک موبائل ایپ کے ذریعے بارش کے ڈیٹا کو اکٹھا کر کے سرکاری اداروں کو بھیج رہے ہیں تاکہ بروقت اقدامات کیے جائیں۔
مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا میں بارشوں اور سیلاب سے تباہی، 200 سے زائد اموات، بونیر اور باجوڑ سب سے زیادہ متاثر
پشاور کے ایک نوجوان عمیر یوسفزائی کہتے ہیں کہ جب میں نوجوان تھا، بارش آتی تو تلوار کی طرح آتی۔ ہم نے بچاؤ کے لیے پانی کے راستے خود بنائے، گھر کے آگے چھوٹا سیلابی چینل کھودا۔ آج نوجوان بیٹھے ہیں، کہتے ہیں حکومت سب کرے گی۔ لیکن وہھی بارش، وہی پانی ہمیں پھر سبق سکھا رہے ہیں کہ حفاظت کا آغاز خود سے ہونا چاہیے۔
اب ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ بارش قدرت کا حسین عطیہ ہے،لیکن جب یہ غیر متوقع شدت اختیار کر جائے، تو سمجھداری، تیاری اور مشترکہ محنت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے سیلابی خطرے والے علاقوں میں نئی تعمیرات پر پابندی اور موجودہ تعمیرات کے لیے مضبوط گائیڈ لائنز فراہم کی جائیں۔
موبائل، ریڈیو اور کمیونٹی بیسڈ سیلاب الرٹ نظام خصوصی طور پر کلاؤڈ برسٹنگ کے لیے سیٹ اپ کیا جائے، درخت لگائے جائیں، پہاڑی علاقوں میں تعمیرات کا ضابطہ بنایا جائے اور ڈرینج نظام کو اپ گریڈ کیا جائے۔ اس کے علاوہ اسکولوں، مساجد، کمیونٹی سینٹروں میں سیلابی حالات میں کیا کریں، اس پر تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کیا جائے۔
سیلاب کے وقت ایک دوسرے کا ساتھ دینا مذہب یا ذات پات سے ماورا ہوتا ہے۔ سیلابی پانی جب ایک ساتھ بہے گا، تب ہی ہم سب نے مل کر اس کا مقابلہ کرنا ہوگا، چاہے تعلیم، زبان، یا مسلک کچھ بھی ہو۔

ماہر موسمیات ڈاکٹر خوشبخت صدیقی نے انڈیا، جاپان اور امریکا جیسے ترقی یافتہ ممالک کی تکنیکی حکمت عملیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جاپان کا G‑Cans زیرِ زمین میگا ٹنل سسٹم شدید بارش کے بعد پانی کو محفوظ کرنے میں بہت مؤثر ہے۔ امریکا میں ریڈار اور سیٹلائٹ پر مبنی الرٹ سسٹم اور انڈیا میں ایپلی کیشنز و فلڈ وارننگ ٹیکنالوجیز قابلِ تقلید ہیں۔
ہر سال وہی کہانی گھوم کر ہمارے دروازے پہ آکر وہی نتائج دہراتی ہے اور حکومت وہی بیانیہ اپنائے رکھتے ہے کہ اداروں کو تمام تر اختیارات دیے گئے تھے، مگر اچانک آنے والے اس حادثے نے نقصان کیا۔ لیکن اس بار ہمیں اپنی داستان بدلنی ہوگی۔
بارش کو تباہی سے بچانے کے لیے ہمیں نہ صرف حکومتی اقدامات بلکہ خود احتسابی، سماجی شعور اور عملی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ جب ہم خود پر بھروسہ کریں، اپنے وسائل کو منظم کریں، تو یہی بارشیں ہمیں زندگی کی نعمتیں بھی دے سکتی ہیں۔
جب تک ہم انتظار کریں گے کہ صرف کسی ایک سے سب ٹھیک ہو جائے گا، تب تک قدرت ہمیں اسی سبق کی داہلی یاد دلاتی رہے گی۔ لیکن اگر ہم مل کر قدم بڑھائیں، تو شاید یہ بارش ہمیں حفاظت، تعاون اور مستقبل کی امید دے جائے۔