پاکستان کی تاریخ میں کئی ایسے کردار ملتے ہیں، جنہوں نے ملک کے وجود، بقا اور ترقی میں اپنی جان، مال اور وقت سب کچھ قربان کیا، لیکن وقت کے دھارے نے ان کے نام کو پس منظر میں دھکیل دیا۔
ان میں سب سے نمایاں نام نواب سر صادق محمد خان عباسی پنجم کا ہے، جو بہاولپور کے آخری نواب تھے۔ وہ بلاشبہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ نظرانداز کیے گئے حکمرانوں میں شمار ہوتے ہیں۔
ایک ایسا شخص، جس نے اپنی ریاست کے وسائل، دولت اور اختیار کو پاکستان کے استحکام کے لیے وقف کر دیا، لیکن آج ان کی شخصیت کو وہ مقام نہیں دیا جاتا، جس کی وہ بجا طور پر مستحق تھے۔
قیامِ پاکستان کے بعد جب ملک کو بے شمار مسائل کا سامنا تھا، تب مہاجرین کی آبادکاری سب سے بڑا چیلنج تھا۔ لاکھوں لوگ اپنے گھروں سے بے دخل ہو کر پاکستان آئے تھے اور ان کی زندگی اجیرن ہو رہی تھی۔ ایسے میں نواب صادق محمد خان عباسی نے اپنی ریاست کے وسائل پاکستان کے حوالے کر دیے۔
بہاولپور کے سرکاری محکمے، سرکاری عمارات اور یہاں تک کہ ذاتی جائیداد تک مہاجرین کی آبادکاری کے لیے فراہم کی گئیں۔ ان کے اس عمل نے ہزاروں خاندانوں کو زندگی کی نئی امید دی۔ اگرچہ یہ خدمات ریاست بہاولپور کو کمزور کر رہی تھیں، مگر نواب صادق نے کبھی ذاتی مفاد کو قومی ضرورت پر ترجیح نہیں دی۔

ان کی سب سے بڑی خدمت مالی مدد تھی۔ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد مرکزی حکومت کے پاس اتنے وسائل موجود نہیں تھے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور انتظامی اخراجات پورے کر سکے۔ ایسے میں نواب صادق نے بہاولپور کے خزانے سے تقریباً ستر کروڑ روپے پاکستان کو فراہم کیے۔
یہ وہ وقت تھا، جب پاکستان کا بجٹ انتہائی کمزور تھا اور ایک بڑی ریاست کا اس طرح اپنی مالی طاقت دینا ناقابلِ فراموش احسان تھا۔ ان کے اس اقدام کے بغیر پاکستان کے ابتدائی سالوں کی مشکلات مزید سنگین ہو سکتی تھیں۔
تعلیم کے میدان میں بھی ان کی خدمات غیر معمولی ہیں۔ بہاولپور میں جامعہ اسلامیہ قائم کرنا نواب صادق کا خواب تھا۔ انہوں نے اس خواب کو حقیقت بنایا اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور آج بھی ان کے وژن کی علامت ہے۔
یہی نہیں بلکہ انہوں نے ایچی سن کالج لاہور، قائداعظم میڈیکل کالج، صادق پبلک اسکول اور دیگر اداروں کو اپنے ذاتی فنڈز سے ترقی دی۔ صادق پبلک اسکول تو آج بھی ملک کے نمایاں تعلیمی اداروں میں شمار ہوتا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ نواب صادق محمد خان عباسی کو تعلیم کی اہمیت کا کس قدر احساس تھا۔
صحت کے شعبے میں بھی نواب صادق کی خدمات بے مثال ہیں۔ انہوں نے بہاول وکٹوریہ ہسپتال جیسے بڑے ادارے کو نہ صرف وسعت دی بلکہ اسے جدید سہولیات سے آراستہ کیا۔ اس ہسپتال نے قیام پاکستان کے بعد لاکھوں لوگوں کو طبی سہولیات فراہم کیں۔
اس کے علاوہ قائداعظم میڈیکل کالج کا قیام بھی انہی کے مالی تعاون سے ممکن ہوا، جس نے پورے جنوبی پنجاب کو صحت اور طبی تعلیم میں ایک نئی شناخت دی۔

زراعت کے شعبے میں بھی نواب صادق نے عملی اقدامات کیے۔ انہوں نے نہری نظام کو بہتر بنایا اور کاشتکاروں کے لیے آسانیاں پیدا کیں۔ ان کے دور میں بہاولپور میں زراعت کو ایک نئی زندگی ملی، جس نے ریاست کی معیشت کو مضبوط کیا۔ یہی زراعت بعد میں پاکستان کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہوئی۔
نواب صادق مذہبی مزاج کے مالک بھی تھے اور انہوں نے اسلام کی خدمت کو اپنی ذاتی زندگی کا حصہ بنایا۔ وہ نہ صرف مساجد اور مدارس کی سرپرستی کرتے تھے بلکہ علما اور دینی طلبا کے لیے وظائف بھی مقرر کیے۔ انہوں نے حجاز مقدس میں بھی تعاون فراہم کیا اور وہاں کی مساجد کے لیے مالی امداد دی۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو وہ نہ صرف ایک حکمران بلکہ ایک مذہبی خادم بھی تھے۔
ان کی قائداعظم محمد علی جناح سے عقیدت اور وفاداری تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ جب قائداعظم علاج کے لیے زیارت گئے تو نواب صادق نے اپنی ریاست کے وسائل ان کے علاج کے لیے وقف کیے۔
انہوں نے قائداعظم کے مشن کو اپنی ریاست کے مفاد پر مقدم رکھا۔ یہی نہیں بلکہ وہ پاکستان کے دفاع کے لیے بھی ہمیشہ پیش پیش رہے۔
غرض یہ کہ نواب صاحب ایک ایسی عظیم شخصیت تھے، جنہوں نے اپنا تخت و تاج پاکستان پر نچھاور کردیا اور اِسلام اور پاکستان سے اپنی بے پناہ محبت کی عظیم مثال قائم کی۔ آپ کی اِن بے لوث خدمات کے نتیجے میں قائد اعظم نے آپ کو محسن پاکستان کا لقب دیا۔
پاکستان کا یہ عظیم محسن 24 مئی1966 کو لندن میں اپنے خالق حقیقی سے جاملا۔ آپ کی میت کو جب چار گھوڑوں کی بگھی ریلوے اسٹیشن سے صادق گڑھ پیلس بہاولپور لائی تو ہزاروں لوگ بگھی کے ساتھ دھاڑیں مار کر روتے ہوئے پیدل چلتے رہے۔

آپ کی نماز جنازہ قاضی عظیم الدین نے پڑھائی، جس میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔ ایک اندازے کے مطابق اُس وقت آٹھ لاکھ لوگوں نے آپ کی نماز جنا زہ میں شرکت کی۔ آپ کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ قلعہ ڈیراوڑ احمد پور شرقیہ ڈیرہ نواب صاحب میں نواب خاندان کے شاہی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی عظیم خدمات کے باوجود نواب صادق محمد خان عباسی کو تاریخ میں وہ مقام کیوں نہیں ملا جس کے وہ حقدار تھے؟ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں رفتہ رفتہ جاگیرداروں اور ریاستی حکمرانوں کو پسِ پشت ڈال دیا گیا۔
مرکزی سیاست نے ان کے کردار کو اجاگر کرنے کے بجائے بھلا دیا۔ دوسرے یہ کہ بہاولپور کو پاکستان میں ضم کرنے کے بعد ریاستی شناخت مٹ گئی اور اس کے ساتھ ہی نواب صادق کی خدمات بھی بتدریج نظر انداز ہوتی گئیں۔
نواب صادق محمد خان عباسی کا شمار ان رہنماؤں میں ہوتا ہے، جنہوں نے پاکستان کو مشکل وقت میں سنبھالا۔ ان کی دولت، ریاست اور اختیار سب کچھ پاکستان کے لیے وقف ہو گیا، لیکن آج نئی نسل ان کے بارے میں بہت کم جانتی ہے۔
ان کی شخصیت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ قومیں صرف سیاست دانوں یا فوجی رہنماؤں کے سہارے نہیں بنتیں بلکہ ان کے پیچھے ایسے خاموش کردار بھی ہوتے ہیں جو اپنا سب کچھ ملک کے لیے قربان کر دیتے ہیں۔