اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے بدھ کو غزہ شہر پر ’مکمل قبضے کے منصوبے‘ کی منظوری دے دی ہے اور تقریباً 60 ہزار ریزرو فوجیوں کو طلب کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع کاٹز کے اس اقدام کی ایک ترجمان نےخبررساں ادارے اے ایف پی کو تصدیق کی ہے، اے ایف پی کے مطابق حماس پر دباؤ ڈالا کیونکہ غزہ میں تقریباً دو سال سے جاری جنگ میں جنگ بندی پر زور دینے والے ثالث اپنی تازہ تجویز پر اسرائیل کے سرکاری ردعمل کا انتظار کر رہے تھے۔
جبکہ ثالث قطر نے تازہ ترین تجویز پر گہری امید کا اظہار کیا تھا، ایک سینئر اسرائیلی اہلکار نے کہا کہ حکومت کسی بھی معاہدے میں تمام مغویوں کی رہائی کے اپنے مطالبے پر قائم ہے۔
حماس نے جس فریم ورک کی منظوری دی تھی اس میں ابتدائی 60 دن کی جنگ بندی، 50 فیصداسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی، کچھ فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور غزہ میں امداد کے داخلے کی اجازت دینے کی تجویز ہے۔
اسرائیل اور حماس نے پوری جنگ کے دوران بالواسطہ مذاکرات کیے ہیں، جس کے نتیجے میں دو مختصر جنگ بندی ہوئی جس کے دوران فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا گیا۔

جنگ بندی کی تازہ ترین تجویز اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ کی جانب سے غزہ شہر کو فتح کرنے کے منصوبے کی منظوری کے بعد سامنے آئی ہے، اس خدشے کے باوجود کہ یہ پہلے سے تباہ کن انسانی بحران کو مزید خراب کر دے گا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ابھی تک اس منصوبے پر عوامی طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے، لیکن گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ان کا ملک “ایک معاہدے کو قبول کرے گا جس میں تمام یرغمالیوں کو ایک ساتھ رہا کیا جائے اور جنگ کے خاتمے کے لیے ہماری شرائط کے مطابق”۔
حماس کے سینئر عہدیدار محمود مرداوی نے سوشل میڈیا پر کہا کہ ان کے گروپ نے “معاہدے تک پہنچنے کے امکانات کے وسیع دروازے کھول دیے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا نیتن یاہو اسے ایک بار پھر بند کر دیں گے، جیسا کہ وہ ماضی میں کر چکے ہیں”۔