Follw Us on:

امریکی صدر کی وائٹ ہاؤس واپسی تارکینِ وطن کے لیے چیلنج کیوں؟

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
فائل فوٹو / گوگل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپس آمد تارکینِ وطن کے لیے بڑا چیلنج بن گئی ہے۔گوانتاناموبے میں غیر قانونی تارکینِ وطن کےلیے ایک حراستی مرکز بنانے کا حکم دیا گیا ہے، جہاں 30 ہزار افراد کو رکھا جا سکے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےبدھ کے روز اعلان کیا کہ  ہوم لینڈ سکیورٹی اور پنٹاگان کو حکم دیا ہے کہ گوانتانامو بے میں خصوصی جگہ بنائی جائے۔

واضح رہے کہ امریکی صدر  نے لیکن ریلی ایکٹ پر دستخط کردیے ہیں جس سے غیر قانونی امیگرینٹس کو گرفتار کرنا، حراست میں لیا جانا اور جبری بے دخل کرنا آسان ہوگیا ہے۔مزید یہ کہ صدر ٹرمپ کے دوسرے دور میں قانونی حیثیت اختیار کرنے والا یہ پہلا قانون ہے۔

فائل فوٹو / گوگل

اس کے ساتھ ہی اپنے دوسرے دور کے پہلے دن ہی ٹرمپ نے  امیگریشن سے متعلق کئی انتظامی احکامات پر دستخط کیے ہیں، اس کے علاوہ ایک قانون کو منسوخ کیا جس میں وفاقی ایجنٹوں کو گرجا گھروں، سکولوں اور ہسپتالوں میں بغیر دستاویزات والے تارکین وطن کی تلاش کی ممانعت تھی۔ یہ وہ مقامات ہیں جنھیں پہلے حساس سمجھا جاتا تھا اور انھیں امیگریشن چھاپوں سے مستثنیٰ سمجھا جاتا تھا۔

اس بل کوری پبلکنز اور ڈیموکریٹس دونوں کی اتفاقِ رائے سے منظور کیا گیا تھا،جس پرصدر ٹرمپ نے ڈیموکریٹس سے اظہار تشکر کرتے ہوئےکہا کہ اس قانون سے سیکڑوں امریکی زندگیاں محفوظ ہوں گی۔

ریلی ایکٹ کے تحت اب وفاقی امیگریشن حکام بغیر قانونی اسٹیٹس کے امریکا میں مقیم ایسے افراد کو بھی جبری بے دخل کرسکیں گےجن پر معمولی نوعیت کی چوری، دکان سے چیز اٹھانے، اہلکار پر تشدد کرنے یا کسی شہری کوموت کے منہ میں دھکیلنے یا شدید زخمی کرنے میں ملوث ہوں گے۔

امریکی صدر نے غیرقانونی امیگرینٹس کو گوانتاناموبے جیل بھیجنے کا منصوبہ بھی بنالیا ہے ۔اس ضمن میں ہوم لینڈ سکیورٹی اور پنٹاگان کو ٹرمپ کی  ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔مجرموں کیلئے گوانٹاناموبے میں 30 ہزار بستر موجود ہیں۔

فائل فوٹو / گوگل

خیال رہے کہ گوانتانامو بے ایک امریکی بحری اڈہ اور جیل ہے جو کیوبا کے جنوب مشرقی حصے میں واقع ہے،جسے عام طور پر گوانتانامو بے حراستی مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے، جہاں 2002 کے بعد سے دہشت گردی کے مشتبہ ملزمان کو قید کیا گیا ہے۔

غیر ملکی نیوز چینل بی بی سی اردو کے مطابق اگر کوئی شخص کسی معقول دستاویزات کے بغیر ان پناہ گاہ کہے جانے والے شہر میں رہ رہا ہے تو وہ اپنی امیگریشن کی حیثیت کو ثابت کیے بغیر حکام کے ساتھ معاملات میں آسانی کی توقع کر سکتا ہے۔

اس کے علاوہ اگر کسی بغیر دستاویز والے شخص کو کسی جرم کی وجہ سے حراست میں لیا جاتا ہے اور امیگریشن حکام کو اس کے بارے میں پتا چلتا ہے تو انھیں اس کے خلاف کارروائی شروع کرنے کا حق حاصل ہے۔ وہ کاروباری اداروں یا عوامی مقامات کے ساتھ ساتھ نجی گھروں میں بھی چھاپے مار سکتے ہیں۔

فائل فوٹو/ بی بی سی

یاد رہے کہ  دورِ حاضر کے امریکہ میں صحیح معنوں میں کوئی بھی شہر ایسا نہیں ہے جو کہ حقیقتا پناہ گاہ ہو اور جہاں آئی سی ای جیسی وفاقی ایجنسیاں ملک بدری کے لیے داخل نہ ہو سکیں۔ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ کوئی شخص بغیر قانونی دستاویزات کے وہاں پہنچ کر سیاسی پناہ کی درخواست کر سکتا ہے اور اسے ملک بدر نہیں کیا جائے گا۔

واشنگٹن ڈی سی میں قائم امریکن یونیورسٹی میں امیگریشن لیبارٹری اور سینٹر فار لیٹن امریکن سٹڈیز کے ڈائریکٹر ارنیسٹو کاستانیدا نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ اگرتارکین وطن  کے پاس معقول دستاویزات نہیں ہیں اور ان پر ملک بدری کے احکامات عائد ہیں تو تمام پولیس فورسز پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔

ایسے تارکینِ وطن  کوئی بھی جرم کرنے سے بچتے ہیں، وہ ڈرائیونگ یا باہر جانے کی کوشش نہیں کرتے کہ کہیں پولیس کا سامنا نہ ہو جائے، وہ نشے کی حالت میں گاڑی چلانے یا اس طرح کی کوئی چیز کرنے سے گریز کرتے ہیں جو ان کے لیے ملک بدری کا باعث بنے۔

دوسری جانب  ٹرمپ اور دیگر ریپبلکن سیاست دانوں کی جانب سے بغیر دستاویزات والے تارکینِ وطن کی پناہ گاہ کہے جانے والے شہروں میں ڈیموکریٹک حکومتوں کی جانب سے مبینہ تحفظ فراہم کیے جانے کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

فائل فوٹو / گوگل

تارکین وطن دوسرے گروپوں کے مقابلے میں کم فلاحی پروگرامز کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ ٹیکس اور پنشن کی مد میں زیادہ ادائیگی کرتے ہیں جن کا وہ ریٹائر ہونے پر کبھی دعویٰ نہیں کرتے، کیونکہ انھوں نے یا تو غلط سوشل سکیورٹی نمبر استعمال کیے ہوتے ہیں یا پھر وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے ہوتے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ وہ زائد ادا کیے ٹیکسوں کی واپسی کا مطالبہ بھی نہیں کرتے اور بہت سے لوگ بے نقاب ہونے کے خوف سے امدادی پروگراموں پر اپنا حق نہیں جتاتے۔

حقیقت یہ ہے کہ پناہ گاہ کہے جانے والے شہر امیگریشن ایجنسیوں کے ساتھ تعاون نہیں کرتے ہیں کیونکہ اس سے وفاقی حکومت سے وسائل کے حصول کے حوالے سے تنازعات پیدا ہو سکتے ہیں۔وائٹ ہاؤس ان ریاستوں اور مقامی حکام کی حمایت کر سکتا ہے جو اس کی امیگریشن پالیسیوں میں مدد کرتے ہیں۔

جارج ڈبلیو بش یا ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور کی ریپبلکن انتظامیہ نے سیکشن 287 جی جیسے ضابطوں کا استعمال کیا ہے تاکہ مقامی حکام کو امیگریشن کی حیثیت کا جائزہ لینے جیسے وفاقی کاموں کو انجام دینے کے لیے ترغیبات فراہم کی جائیں۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس