پنجاب پولیس کے محکمے میں کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی ایک اور مثال اس وقت سامنے آئی، جب لاہور کے علاقے قلعہ گجر سنگھ میں چیکنگ کے دوران پانچ پولیس اہلکاروں کو مبینہ طور پر ایک ہزار روپے نکالنے کے الزام میں معطل کر دیا گیا۔
یہ واقعہ پنجاب پولیس کے احتسابی نظام پر ایک بڑا سوالیہ نشان چھوڑ گیا ہے، کیونکہ قلعہ گجر سنگھ پولیس لائنز میں کرپشن کے دیگر اسکینڈلز بھی ماضی میں رپورٹ ہو چکے ہیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پولیس میں بدعنوانی کوئی نیا یا الگ تھلگ مسئلہ نہیں بلکہ ایک گہری جڑوں والی خرابی ہے۔
ذرائع کے مطابق متاثرہ شہری اپنی روزمرہ کی مصروفیات میں تھا جب قلعہ گجر سنگھ کے علاقے میں تعینات پولیس اہلکاروں نے اسے چیکنگ کے بہانے روک لیا۔ شہری نے الزام لگایا کہ چیکنگ کے دوران پولیس اہلکاروں نے اس کی جیب سے ایک ہزار روپے نکال لیے اور جب اس نے احتجاج کیا تو اہلکاروں نے دھمکی آمیز رویہ اختیار کر لیا۔

شہری نے معاملہ رفع دفع کرنے کے بجائے فوری طور پر پولیس ہیلپ لائن 15 پر کال کر کے شکایت درج کرائی۔ تاہم، شکایت درج ہونے کے بعد پولیس اہلکاروں نے شہری پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنی شکایت واپس لے اور زبردستی معافی نامہ لکھوایا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اہلکاروں نے شہری کو یہ بیان دینے پر مجبور کیا کہ پیسے اس کی جیب سے خود ہی گر گئے تھے اور یہ سب ایک غلط فہمی تھی، لیکن جب معاملے کی تحقیقات شروع ہوئیں، تو اہلکار قصوروار پائے گئے۔
پولیس ذرائع کے مطابق انکوائری میں الزام درست ثابت ہونے کے بعد ہیڈ کانسٹیبل حسن، شکیل، طاہر اور کانسٹیبل تجمل اور عمران کو معطل کر دیا گیا۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ بدعنوان اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کی جا رہی ہے اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مزید اصلاحات متعارف کرائی جا رہی ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب قلعہ گجر سنگھ پولیس لائنز میں کرپشن کا معاملہ سامنے آیا ہو۔ اس سے قبل ستمبر 2024 میں ایک بڑا اسکینڈل رپورٹ ہوا تھا، جس میں انکشاف ہوا کہ لیڈی ہیڈ محرر اقصیٰ عزیز اور نائب محرر کرن جمال پولیس لائنز میں تعینات 24 لیڈی کانسٹیبلز کی غیر حاضری کے باوجود تنخواہ لے رہی تھیں۔

تحقیقات کے مطابق ان دونوں افسران پر ماہانہ رقم لے کر جعلی حاضریاں لگانے کا الزام تھا۔ اس انکشاف کے بعد پنجاب پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے دونوں اہلکاروں کو معطل کر دیا تھا، مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ واقعی کرپشن کے خاتمے کے لیے کافی تھا؟
اسی طرح دسمبر 2024 میں ڈی آئی جی آپریشنز محمد فیصل کامران نے قلعہ گجر سنگھ پولیس لائنز میں اردل روم کے دوران 18 پولیس اہلکاروں کے خلاف انکوائری کی، جس میں بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی شکایات شامل تھیں، ان کارروائیوں میں 10 اہلکاروں کی سروس ضبط کی گئی۔
یہ تمام واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ پنجاب پولیس میں کرپشن کا ایک مضبوط نیٹ ورک موجود ہے، جو نچلی سطح سے لے کر انتظامی سطح تک پھیلا ہوا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اہلکار بار بار بدعنوانی میں ملوث ہو رہے ہیں، تو کیا انہیں صرف معطل کرنا کافی ہے؟ کیا معطلی کے بعد وہ دوبارہ بحال نہیں ہو جاتے؟ اور کیا ان کے خلاف مقدمات درج کر کے سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے؟
عوام کا کہنا ہے کہ جب تک پولیس میں اندرونی احتسابی عمل شفاف اور مضبوط نہیں ہوگا اور بدعنوان اہلکاروں کو قانونی سزائیں نہیں دی جائیں گی، اس قسم کے واقعات کا سلسلہ جاری رہے گا۔

سوشل میڈیا پر اس واقعے پر شدید ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ پولیس کے رویے میں بہتری لانے کے لیے صرف معطلی کافی نہیں بلکہ ایسے اہلکاروں کو قانون کے مطابق سخت سزا دینی چاہیے۔
کچھ صارفین نے نشاندہی کی کہ اگر کوئی عام شہری کسی جرم میں ملوث پایا جائے، تو اسے فوری گرفتار کر لیا جاتا ہے، مگر پولیس اہلکاروں کو محض معطل کر کے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
پولیس حکام کے مطابق اس معاملے میں مزید انکوائری کی جا رہی ہے اور اگر معطل اہلکاروں پر جرم ثابت ہو جاتا ہے تو انہیں مزید سخت کارروائی کا سامنا پڑ سکتا ہے۔
یہ واقعات ایک بار پھر سوالات کو جنم دیتے ہیں کہ کیا پنجاب پولیس واقعی عوام کی حفاظت کے لیے ہے، یا پھر شہریوں کے حقوق کی پامالی ایک معمول بنتی جا رہی ہے؟ اور کیا پولیس کے احتساب کے لیے کوئی آزاد اور خودمختار ادارہ ہونا چاہیے، جو ان معاملات کی شفاف تحقیقات کرے؟
یہ وہ سوالات ہیں جو آج ہر شہری کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں، مگر ان کے جوابات شاید ابھی بھی دھند میں لپٹے ہوئے ہیں۔

شہری قاسم اکرم نے بتایا کہ پولیس اہلکار دوران چیکنگ انہیں بلاوجہ تنگ کرتے ہیں اور اکثر یہ کارروائیاں شہریوں کو خوف میں مبتلا کرنے کے لیے کی جاتی ہیں۔ قاسم کے مطابق اہلکار ضرورت سے زیادہ تفتیش کرتے ہیں اور بعض اوقات پیسوں کا مطالبہ کرتے ہیں، جس سے شہریوں کو ذہنی اذیت ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس کا یہ رویہ عوام کے ساتھ اعتماد کے رشتہ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
شہری عاطف شکیل نے کہا کہ پولیس کا رویہ اکثر نامناسب ہوتا ہے اور انہیں عوامی سطح پر احترام کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔ ان کے مطابق اہلکاروں کا سخت اور دھمکی آمیز طرز عمل پولیس کی ساکھ کو متاثر کرتا ہے، جس کی اصلاح ضروری ہے تاکہ شہریوں کا اعتماد بحال ہو سکے۔
شہری احمد علی نے پولیس کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اہلکار چیکنگ کے دوران بلاوجہ تنگ کرتے ہیں اور توہین آمیز سلوک کرتے ہیں۔ ان کے مطابق پولیس کبھی کبھار بلاجواز تفتیش کرتی ہے اور شہریوں کو اپنی بات رکھنے کا موقع نہیں دیتی، جس سے ہمیں شدید ذہنی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔