کینیڈا نے امیگریشن پالیسی میں تبدیلیوں کے ساتھ غیر ملکی طلبا کے لیے ویزا کا حصول بھی مشکل بنا دیا ہے۔
کینیڈا کے امیگریشن اور مہاجرین سے متعلق ادارے آئی آر سی سی کے مطابق رواں سال 2025 میں 62 فیصد سٹوڈنٹ ویزا درخواستیں مسترد ہوئیں، جو گزشتہ سال 52 فیصد تھیں۔ اس سے پہلے اوسط شرح تقریباً 40 فیصد رہی تھی۔
یہ پالیسی میں بڑی تبدیلی سمجھی جا رہی ہے اور اعداد و شمار کے مطابق ویزا مسترد ہونے کی شرح دس سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔
رپورٹس کے مطابق انڈین طلبا اس پالیسی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ان کی 80 فیصد ویزا درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔
گزشتہ سال 2024 میں کینیڈا نے دس لاکھ غیر ملکی طلبا کی میزبانی کی تھی جن میں سے 41 فیصد انڈیا، 12 فیصد چین اور 17 ہزار سے زیادہ ویتنام سے تعلق رکھتے تھے۔
امیگریشن ماہرین کا کہنا ہے کہ ہاؤسنگ مسائل اور انفراسٹرکچر پر دباؤ کی وجہ سے حکومت کو اندرونی پریشانیوں کا سامنا ہے، اسی لیے طلبا کی ویزا درخواستوں کا زیادہ سختی سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔

بارڈر پاس کی صدر جانتھن شرمن کے مطابق آئی آر سی سی نے مالی ثبوت کی شرط بھی سخت کر دی ہے اور طلبا کو اب 20 ہزار 635 ڈالر دکھانا ہوں گے جو پہلے کی رقم سے دگنی ہے۔
کینیڈا نے اعلان کیا ہے کہ 2025 میں 4 لاکھ 37 ہزار اسٹڈی پرمٹس جاری کیے جائیں گے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 10 فیصد کم ہیں۔ ان میں سے 73 ہزار پوسٹ گریجوایٹ اور تقریباً 2 لاکھ 43 ہزار انڈر گریجوایٹ اور دیگر پروگرامز کے لیے ہوں گے۔
کینیڈا میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد زیادہ تر غیر ملکی طلبا ورک پرمٹ کے لیے اپلائی کرتے ہیں لیکن اب اس کی شرائط بھی سخت کر دی گئی ہیں۔
ورک پرمٹ حاصل کرنے کے لیے طلبا کو انگلش یا فرانسیسی زبان کے ٹیسٹ کے نتائج دکھانے ہوں گے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی طالب علم غیر منظور شدہ ڈگری پروگرام میں منتقل ہوگا تو وہ ورک پرمٹ کا اہل نہیں رہے گا۔
اس سے پہلے کینیڈا نے طلبا کے لیے ’سٹوڈنٹ ڈائریکٹ سکیم‘ متعارف کرائی تھی جس کے تحت مالی ثبوت دکھائے بغیر ویزا کا عمل تیز ہوتا تھا، مگر حکومت نے یہ سکیم بھی ختم کر دی ہے۔