امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ آج جمعے کو ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کریں گے، جس کے تحت محکمہ دفاع کا نام دوبارہ بدل کر “محکمہِ جنگ” (Department of War) رکھا جائے گا۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق یہ اقدام حکومت کے سب سے بڑے ادارے پر ٹرمپ کی اپنی چھاپ چھوڑنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
اس حکم کے بعد وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ اور دیگر حکام کو اجازت ہوگی کہ وہ اپنے عہدوں اور ادارے کے لیے “سیکرٹری آف وار”، “ڈپارٹمنٹ آف وار” اور “ڈپٹی سیکرٹری آف وار” جیسے نام سرکاری خطوط اور عوامی بیانات میں استعمال کریں۔
ہیگستھ کو یہ بھی ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اس نام کی تبدیلی کو مستقل بنانے کے لیے قانون سازی اور دیگر اقدامات کی تجاویز دیں۔
محکمے کا اصل نام “وار ڈپارٹمنٹ” ہی تھا، لیکن 1949 میں کانگریس نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد آرمی، نیوی اور ایئرفورس کو ملا کر “ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس” قائم کیا تھا تاکہ یہ پیغام دیا جا سکے کہ ایٹمی دور میں امریکا جنگ سے زیادہ امن قائم رکھنے پر توجہ دے گا۔
نام کی تبدیلی اب نہ صرف مہنگی ہوگی بلکہ دنیا بھر میں فوجی تنصیبات، خط و کتابت اور سرکاری دستاویزات کو نئے سرے سے اپ ڈیٹ کرنا پڑے گا۔

سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں جب کنفیڈریٹ رہنماؤں کے نام پر رکھے گئے نو فوجی اڈوں کے نام بدلے گئے تھے تو اس پر صرف فوج کو 3 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کی لاگت آئی تھی۔ اس فیصلے کو رواں سال ہیگستھ نے منسوخ کر دیا تھا۔
ڈیموکریٹ سینیٹر اور فوجی تجربہ کار ٹیمی ڈک ورتھ نے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پیسہ فوجی خاندانوں کی مدد یا سفارتکاری کو مضبوط بنانے پر خرچ ہونا چاہیے، لیکن صدر ٹرمپ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے فوج کو استعمال کر رہے ہیں۔
دوسری جانب وزیر دفاع ہیگستھ نے کہا کہ یہ تبدیلی محض الفاظ کی نہیں بلکہ “وارئیر ایتھوس” (جنگجو جذبے) کی عکاسی کرتی ہے۔
ٹرمپ نے بھی کہا کہ “ڈیفنس” (دفاع) بہت دفاعی لگتا ہے، جبکہ امریکا کو ضرورت پڑنے پر جارحانہ رویہ بھی اپنانا پڑتا ہے۔
ٹرمپ کے اتحادی رکن کانگریس جیمز کومر نے حال ہی میں ایک بل پیش کیا ہے جو صدر کو وفاقی اداروں کے نام اور ڈھانچے بدلنے کا عمل آسان بنائے گا۔ ناقدین کے مطابق یہ فیصلہ غیر ضروری اور مہنگا ہے، لیکن ٹرمپ کے حامی اسے تاریخ اور وراثت کی بحالی قرار دے رہے ہیں۔