Follw Us on:

افغانستان میں زلزلے کے آفٹر شاکس، اب تک 2200 افراد جاں بحق، مزید ’جانی نقصان‘ ہوسکتا ہے

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Afghan earthquake
زلزلوں نے نہ صرف بنیادی ڈھانچے کو تباہ کیا ہے بلکہ متاثرین زندگی کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔ (فوٹو: رائٹرز)

مشرقی افغانستان میں رواں ہفتے آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد مسلسل آفٹر شاکس کا سلسلہ جاری ہے جس سے مزید تباہی اور جانی نقصان کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔

اتوار کو آنے والے 6 شدت کے زلزلے میں اب تک اموات کی تعداد تقریباً 2200 اور زخمیوں کی تعداد 3640 تک جا پہنچی ہے جبکہ 6700 سے زائد مکانات تباہ ہو گئے ہیں۔

جرمن ریسرچ سینٹر فار جیو سائنسز کے مطابق جمعے کو 12 گھنٹے کے دوران دو طاقتور آفٹر شاکس مشرقی افغانستان میں ریکارڈ کیے گئے۔

پہلا جھٹکا 5.4 شدت کا تھا جو جنوب مشرقی علاقے میں 10 کلومیٹر کی گہرائی پر آیا۔

امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق جمعے کو تین جھٹکے محسوس کیے گئے، پہلا جلال آباد کے شمال مشرق میں 35 کلومیٹر کے فاصلے پر 4.9 شدت کا تھا، دوسرا اسد آباد کے جنوب مغرب میں 39 کلومیٹر کے فاصلے پر آیا جس کی شدت 5.4 اور گہرائی 9.1 کلومیٹر تھی، جبکہ تیسرا آفٹر شاک اسد آباد کے جنوب مغرب میں 48 کلومیٹر کے فاصلے پر 4.8 شدت کا ریکارڈ ہوا۔

Afghan earthquake 1
اقوام متحدہ اور امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں خوراک، ادویات اور پناہ گاہوں کی شدید کمی ہے۔ (فوٹو: رائٹرز)

ان جھٹکوں سے متاثرہ علاقوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ ننگرہار اور کنڑ صوبوں کے کئی دیہات مکمل طور پر ملیا میٹ ہو گئے ہیں اور امدادی کارکن ملبے سے لاشیں نکالنے میں مصروف ہیں۔

گھروں کی اکثریت چونکہ کچی اینٹوں، پتھروں اور لکڑی سے بنی ہوئی ہے، اس لیے وہ جھٹکوں کی تاب نہ لا سکے۔ بڑی تعداد میں لوگ گھروں میں واپس جانے کے بجائے کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔

زلزلوں نے نہ صرف بنیادی ڈھانچے کو تباہ کیا ہے بلکہ متاثرین زندگی کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔

اقوام متحدہ اور امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں خوراک، ادویات اور پناہ گاہوں کی شدید کمی ہے۔

یہ زلزلے ہندوکش کے پہاڑی سلسلے میں آئے ہیں جہاں بھارتی اور یوریشیائی ٹیکٹونک پلیٹیں آپس میں ٹکراتی ہیں اور اس خطے کو بار بار زلزلوں کا سامنا رہتا ہے۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس