حال ہی میں اپنے خاندان کو امریکا سے واپس پاکستان منتقل کرنے والے ایک شخص نے اپنی نوعمر بیٹی کو قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے کیوں کہ بیٹی کی ٹک ٹاک ویڈیوزاسے پسند نہیں تھیں۔
انوار الحق پر قتل کا الزام اس وقت لگایا گیا جب اس نے منگل کو کوئٹہ میں اپنی بیٹی حرا کو گولی مارنے کا اعتراف کیا۔ اس نے ابتدائی طور پر تفتیش کاروں کو بتایا تھا کہ فائرنگ کے پیچھے نامعلوم افراد کا ہاتھ تھا۔
امریکی شہریت رکھنے والے والد نے کہا کہ اسے اپنی بیٹی کی پوسٹس اچھی نہیں لگتی تھیں۔
پولیس کے مطابق وہ اس کیس کو تمام زاویوں سے دیکھ رہے ہیں جس میں غیرت کے نام پر قتل کرنا شامل ہے جو ملک میں کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمات کے مطابق، پاکستان میں ہر سال سینکڑوں افراد جن میں سے زیادہ تر خواتین ہیں، نام نہاد غیرت کے نام پر قتل میں مارے جاتے ہیں۔ یہ قتل عام طور پر رشتہ داروں کی طرف سے کیے جاتے ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ اپنے خاندان کی عزت کے دفاع میں کام کر رہے ہیں۔
حرا انور کے معاملے میں، جس کی عمر 13 سے 14 سال کے درمیان تھی، پولیس کے ترجمان نے کہا کہ اس کے خاندان کو “اس کے لباس، طرز زندگی اور سماجی روابط پر اعتراض تھا”۔ یہ خاندان 25 سال تک امریکا میں مقیم رہا تھا۔

پولیس نے بتایا کہ ان کے پاس حرا کا فون تھا، جو بند ہے۔
پولیس نے بتایا کہ اس کے والد کے بہنوئی کو بھی قتل کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا تھا۔
اگر یہ غیرت کے نام پر قتل پایا جاتا ہے اور وہ مجرم پائے جاتے ہیں، تو ان دونوں مردوں کو لازمی عمر قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا جو کہ 2016 میں حکومت پاکستان کی جانب سے قانون میں تبدیلی کی گئی تھی۔ اس سے پہلے اگر مقتول کے خاندان کی طرف سے معافی دی جاتی ہے تو وہ جیل کی سزا سے بچ سکتے تھے۔
2023 میں اطالوی کورٹ نے ایک پاکستانی جوڑے کو عمر قید کی سزا سنائی تھی کیوں کہ انہوں نے بھی اپنی 18 سالہ بیٹی کو قتل کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ لڑکی نے ارینج میریج کرنے سے انکار کیا تھا۔
پنجاب پولیس کے مطابق صرف پنجاب میں 2023 میں 150 کیسز غیرت کے نام پر قتل میں رپورٹ ہوئے۔