خیبرپختونخوا میں آٹھ ہزار سے زیادہ فتنہ الخوارج دہشت گرد موجود ہیں جو عام آبادی میں پناہ لے کر سیکیورٹی فورسز پر حملے کرتے ہیں۔
حکام کے مطابق فتنہ الخوارج افغانستان سے غیر معروف راستوں کے ذریعے پاکستان آئے ہیں اور پشاور، ٹانک، ڈی آئی خان، بنوں، لکی مروت، سوات، شانگلہ اور ضم اضلاع میں ان کی موجودگی ہے۔
اس کے علاوہ باجوڑ اور خیبر میں بھی 800 سے زیادہ دہشت گرد پناہ لئے ہوئے ہیں۔ سرکاری حکام کے مطابق دہشت گرد سی پیک روڈ، ڈی آئی خان سے بنوں اور ٹانک میں ناکے لگاتے ہیں۔
عام آبادی میں چھپ کر رہنے والے یہ دہشت گرد سیکیورٹی فورسز پر حملے کرتے ہیں جس کی وجہ سے فورسز کو جوابی کارروائی میں مشکلات پیش آتی ہیں اور ان کارروائیوں میں فورسز کو جانی نقصان بھی ہوتا ہے۔
حکام نے بتایا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی زیرصدارت ہونے والے جرگوں میں قبائلی عمائدین نے افغانستان سے دہشت گردوں کی دراندازی پر نالاں ہوتے ہوئے اس معاملے کو افغان حکومت کے ساتھ اٹھانے کا مطالبہ کیا۔
سرکاری حکام کے مطابق شمالی وزیرستان اور باجوڑ میں سیکیورٹی فورسز نے حالیہ ہفتوں میں دراندازی کرنے والے 80 دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔
اس سلسلے میں آئی جی خیبرپختونخوا ذوالفقار حمید نے جیونیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ‘کے پی’ میں فتنہ الخوارج کی موجودگی اور دہشت گرد کارروائیوں سے آگاہ ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ڈی آئی خان، لکی مروت، باجوڑ، وزیرستان، خیبر، بنوں اور دیر میں متعدد خوارج کو ہلاک کیا گیا ہے اور گزشتہ ماہ 190 آپریشنز میں 39 خوارج کو مارا اور 110 کو گرفتار کیا گیا۔
آئی جی ذوالفقار حمید نے کہا کہ فتنہ الخوارج کی جانب سے سڑکوں پر ناکے لگانے کا سختی سے نوٹس لیا ہے اور سی پیک پر موٹروے پولیس کے ساتھ مل کر دن رات گشت شروع کردیا گیا ہے۔
مشیراطلاعات خیبرپختونخوا بیرسٹر سیف نے کہا کہ دہشت گرد افغانستان سے آ رہے ہیں جن کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے فتنہ الخوارج کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔
واضع رہے کہ حکام کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں اور صوبے میں سیکیورٹی کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔
وزیر اعلیٰ کے پی کے تحت ان کارروائیوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے تاکہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو مزید کمزور کیا جا سکے۔