Follw Us on:

سرکاری نااہلی سے ڈوبا گجرات، الخدمت فاؤنڈیشن لوگوں کا سہارا کیسے بن رہی ہے؟

احسان خان
احسان خان
Alkhidmat foundation
ضلع منڈی بہاؤالدین اور گجرات کے متعدد موضع جات تاحال زیر آب ہیں۔ (فوٹو: فیسبک)

یوں تو حالیہ بارشوں اور سیلابی صورتحال نے پنجاب سمیت پاکستان بھر میں تباہی مچائی مگر جو تباہی دریائے چناب نے مچائی وہ ناقابلِ بیان۔ لاکھوں لوگ متاثر ہوگئے ہیں اور کروڑوں روپے کا کاروبار تباہ ہوا ہے۔

ضلع منڈی بہاؤالدین اور گجرات کے متعدد موضع جات تاحال زیر آب ہیں۔ گجرات میں جہاں چوہدری برادران اور دیگر حکمران دہائیوں تک وزارتِ عظمیٰ اور اہم سرکاری عہدوں پر فائز رہے، وہاں بدقسمتی سے سیوریج سسٹم ہمیشہ ناکامی کا شکار رہا۔ نتیجتاً عوام کو بارش اور سیلاب کے ہر موقع پر شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

پی ڈی ایم اے پنجاب کے مطابق سیلاب کے مختلف حادثات میں 76 شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جب کہ سیلاب سے مجموعی طور پر 42 لاکھ 9 ہزار افراد متاثر ہوئے، جن میں سے 21 لاکھ 90 ہزار لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔

اس سیلاب سے تینوں دریاؤں کے کنارے واقع 4400 سے زیادہ دیہات متاثر ہوئے ہیں۔ ان میں دریائے چناب میں 2190، دریائے راوی میں 1495 اور دریائے ستلج میں 651 دیہات شامل ہیں۔

صدر الخدمت فاؤنڈیشن گجرات راجہ ساجد اشرف نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلسل بارشوں کے کی وجہ سے گجرات کے گردونواح کے تمام نالے بھر گئے، جس کے نتیجے میں شہر میں سیلابی صورتحال پیدا ہوئی اور سات دن گزر جانے کے باوجود بھی کئی گھروں میں پانی کی سطح سات فٹ سے کم ہو کر اب بھی چار سے پانچ فٹ تک موجود ہے، جہاں متاثرہ افراد کو الخدمت فاؤنڈیشن کی جانب سے ریسکیو اور امداد فراہم کی جا رہی ہے۔

Alkhidmat foundation ii
گھروں میں پانی کی سطح سات فٹ سے کم ہو کر اب بھی چار سے پانچ فٹ تک موجود ہے۔ (فوٹو: فیسبک)

حکومت کی جانب سے متاثرہ علاقوں میں عارضی کیمپ تو قائم کیے جاتے ہیں، لیکن یہ صرف وقتی نمائش ثابت ہوتے ہیں۔ خاص طور پر جب کسی وزیر یا سرکاری عہدیدار کا دورہ متوقع ہو تو ان کیمپوں کو پھولوں کی طرح سجایا جاتا ہے، مگر دورہ ختم ہوتے ہی حالات دوبارہ ویسے کے ویسے ہی رہ جاتے ہیں اور متاثرہ عوام اپنی مشکلات کے ساتھ تنہا رہ جاتے ہیں۔

راجہ ساجد اشرف بتاتے ہیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے گجرات کے دورے کے دوران انہیں ان دیہات میں لے جایا گیا، جہاں پانی پہلے ہی اتر چکا تھا۔ اگر وہ حقیقی متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتیں تو انہیں اندازہ ہوتا کہ یہاں اب بھی کس قدر پانی کھڑا ہے اور لوگ کس طرح مجبوری اور مشکلات میں گھِرے ہوئے ہیں۔ اصل صورتحال سے آگاہی کے بغیر متاثرین کی مشکلات کا حل ممکن نہیں۔

گجرات شہر اور اس کے مضافاتی علاقوں میں اب بھی پانی جمع ہے، جس کے باعث مقامی آبادی کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عارضی خیمہ بستی سے پارک تک: الخدمت کس طرح سیلاب متاثرہ بچوں کی ذہنی نشوونما میں مدد کررہی ہے؟

الخدمت فاؤنڈیشن گجرات کے صدر کا کہنا ہے کہ متعدد گھروں میں اب بھی چار سے پانچ فٹ پانی کھڑا ہوا ہے، جس کی وجہ سے روزمرہ زندگی تقریباً مفلوج ہو چکی ہے۔ ان علاقوں میں گیس اور بجلی کی فراہمی بھی بری طرح متاثر ہے، جب کہ بنیادی سہولیات کی کمی نے عوام کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

پنجاب میں سیلاب نے 13 لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی اراضی کو تباہ کر دیا ہے، جس سے زرعی شعبے کو شدید نقصان پہنچا ہے اور ملک کے غذائی بحران کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ گجرات ڈویژن میں  دو لاکھ ایکڑ زرعی اراضی زیر آب آئی، جب کہ ساہیوال ڈویژن میں 1.45 لاکھ ایکڑ، بہاولپور میں 1.3 لاکھ ایکڑ اور لاہور ڈویژن میں 99 ہزار ایکڑ زرعی رقبہ متاثر ہوا ہے۔

Alkhidmat foundation iii
اصل صورتحال سے آگاہی کے بغیر متاثرین کی مشکلات کا حل ممکن نہیں۔ (فوٹو: فیسبک)

اگر فوری طور پر سیلاب متاثرین کے لیے بحالی کا جامع منصوبہ نہ بنایا گیا تو یہ آفت ایک بڑے انسانی المیے میں بدل سکتی ہے۔ متاثرہ علاقوں میں نہ صرف پینے کے صاف پانی کی شدید قلت ہے بلکہ وبائی امراض پھوٹنے کا خدشہ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ خاص طور پر بچوں اور بزرگوں کی صحت سب سے زیادہ خطرے میں ہے۔

مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ اگر حکومت مستقل بنیادوں پر سیوریج سسٹم کی بہتری اور دریاؤں کے کناروں پر حفاظتی بندوں کو مضبوط بنانے کے اقدامات کرے تو آئندہ ایسے سانحات کو کافی حد تک روکا جا سکتا ہے۔

متاثرین کا مطالبہ ہے کہ حکومت محض وقتی دوروں اور نمائشی کیمپوں کے بجائے طویل مدتی اقدامات کرے، تاکہ ان کے گھروں، فصلوں اور زندگیوں کو محفوظ بنایا جا سکے۔ عوام کا کہنا ہے کہ وہ صرف امداد نہیں بلکہ ایسا نظام چاہتے ہیں جو انہیں بار بار انہی آزمائشوں سے گزرنے پر مجبور نہ کرے۔

احسان خان

احسان خان

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس