حکومت کے کام میں تسلسل ہو نہ ہو مگر چینی کی قیمتیں آٹھ ہفتوں سے مسلسل بڑھ رہی ہیں، شہری پریشان ہیں کہ قیمتوں میں اضافے کا یہی حال رہا تو رمضان المبارک میں ہمارا کیا ’حال‘ ہوگا، جبکہ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ ’چینی کی قیمت میں اضافے کی خبریں غلط ہیں‘۔ کیا ایسا ہی ہے؟
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق نومبر 2024 سے جنوری 2025 تک پاکستان میں چینی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، 7 نومبر 2024 کو چینی کی فی کلو قیمت 5 روپے بڑھ کر 119 روپے تک پہنچ گئی۔ 10 دسمبر 2024 کوایکس مل قیمت 115 روپے سے بڑھ کر 125 روپے فی کلو ہو گئی۔
جس سے بڑے دکاندار چینی 130 سے 135 روپے فی کلو میں بیچنے لگے۔ جنوری 2025 میں چینی کی قیمت میں مزید اضافہ ہوا جس سے اوسط قیمت 145 روپے 50 پیسے فی کلو تک پہنچ گئی،لاہور میں ہفتہ کے روز قیمت پانچ روپے اضافہ ہوا۔ اس طرح پرچون بازار میں چینی 155 روپے کلو فروخت ہورہی ہے۔
وفاقی وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین نے کہاکہ رمضان میں چینی کی قیمتیں بڑھانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ انہوں نے چینی کی قیمتوں کو قابو کرنے کے لیے اجلاس کیا۔
رانا تنویر نے کہا کہ ’چینی کی قیمتوں کو رمضان میں بڑھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، رمضان کے دوران صارفین کو ریلیف فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے‘۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ چینی کی قیمتوں پر مشاورت کے لیے شوگر ملرز کو ایک ہفتے کا وقت دیا گیا، چینی کی قیمتوں کا حتمی اعلان جمعرات 6فروری کو کیا جائے گا۔
6 فروری کو وہ اب کیا اعلان کرتے ہیں اس کا تو کچھ نہیں کہا جاسکتا مگرشہری کافی پریشان دکھائی دیے۔ پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے لاہور کے ایک شہری ریاض احمد نے کہا کہ ’پہلے سبزی اور گوشت مہنگا ہوا، پھر آٹا، اب چینی بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر جا رہی ہے۔ آخر ہم جائیں تو کہاں جائیں؟‘

دکاندار اظہر کا کہنا ہے کہ ’صرف چند ہفتوں میں 18 روپے فی کلو کا اضافہ ہو چکا ہے، اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ رمضان میں یہ قیمت 170 روپے فی کلو تک پہنچ سکتی ہے‘۔
لیکن یہ اضافہ ہو کیوں رہا ہے؟ کیا واقعی چینی کی قلت ہے، یا یہ ایک مصنوعی بحران ہے جو ہر سال کی طرح عوام پر مسلط کیا جا رہا ہے؟
چینی کی بڑھتی قیمت: اصل کہانی کیا ہے؟
پاکستان میں چینی کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کوئی نئی بات نہیں، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس بار یہ اضافہ اس وقت ہو رہا ہے جب ملک میں گنے کا کرشنگ سیزن جاری ہے، یعنی چینی کی پیداوار ہو رہی ہے۔
دسمبر میں چینی کا ایکس مل ریٹ 125 روپے فی کلو تھا، جو اب بڑھ کر 140 سے 143 روپے فی کلو تک پہنچ چکا ہے۔
ہول سیل مارکیٹ کے ایک ڈیلرنے بتایا کہ ’مسئلہ یہ ہے کہ فروری کے لیے فیوچر ٹریڈ میں چینی 145 روپے فی کلو پر بک رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آنے والے دنوں میں چینی مزید مہنگی ہوگی‘۔
پاکستان میں چینی کے بحران پر ماضی میں تحقیقات، اسکینڈلز اور رپورٹس سامنے آتی رہی ہیں۔ 2020 میں شوگر کمیشن کی رپورٹ میں واضح کیا گیا تھا کہ چینی کی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجہ شوگر مافیا کی ذخیرہ اندوزی اور حکومت کی ناقص پالیسی تھی۔
اقتصادیات کے پروفیسر اشفاق اللہ کا کہنا ہے کہ ’چینی کی برآمد کی اجازت اور قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں حکومتی نااہلی اس بحران کا سبب بن رہی ہے‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر سال گنے کی کرشنگ کے دوران قیمت کم ہوتی ہے، لیکن اگر قیمت بڑھ رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یا تو حکومت چینی ایکسپورٹ کر رہی ہے یا پھر کچھ لوگ اسے ذخیرہ کر رہے ہیں لیکن حقیقت کیا ہے اللہ بہتر جانتا ہے۔
جب اس کے بارے شوگر ملز ایسوسی ایشن سے پوچھا گیا تو ان کے ترجمان وحید چوہدری نے کہا کہ’ قیمتوں میں اضافے کی وجہ گنے کی بڑھتی ہوئی لاگت ہے گنے کی قیمت میں اضافہ ہو گا تو چینی کی قیمت بھی بڑھے گی‘۔

ان کے مطابق سنٹرل پنجاب کی تمام ملز اس وقت خسارے میں ہیں جبکہ جنوبی پنجاب کی کچھ ملز منافع میں چل رہی ہیں، کسان مہنگا گنا بیچ رہے ہیں، اور بجلی و دیگر اخراجات بھی زیادہ ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے چینی کی پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے۔
چینی کی قیمت بڑھنے سے اس کی کھپت میں بھی کمی آگئی ہے،لاہور کی ایک نجی مارکیٹ میں موجود ایک دکاندار نے کہ ’پہلے 5 کلو چینی لینے والے لوگ اب 2 کلو میں گزارا کر رہے ہیں، کیونکہ قیمت بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ اگر حکومت نے کچھ نہ کیا تو رمضان میں صورتحال مزید خراب ہوگی اور غریب آدمی کہاں جائے گا۔
مارکیٹ میں موجود خریداروں کا کہنا ہے کہ چینی کی قیمت میں اضافہ دیگر اشیائے خورونوش پر بھی اثر ڈالے گا ہم تو پہلے ہی مر رہے ہیں مزید کیا کریں۔ حکومت ہمارے ساتھ ظلم بند کرے۔
بازار میں آئی ایک خاتون نے کہا کہ’ چینی صرف چائے میں نہیں، میٹھے کھانوں میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو رمضان میں چینی خریدنا مشکل ہو جائے گا اور کچھ نہیں تو رمضان کا ہی حیا کر لیں اور عوام کو ریلیف دیں‘۔
اقتصادیات کے پروفیسر اشفاق اللہ کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے فوری اقدامات نہ کیے تو رمضان میں چینی 170 روپے فی کلو تک پہنچ سکتی ۔
اشفاق اللہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر حکومت چینی کے ذخائر کو مانیٹر کرے اور برآمد پر کنٹرول کرے، تو قیمت کم ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر حکومت خاموش رہی تو رمضان میں بحران سنگین ہو سکتا ہے۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ پاکستان میں چینی کا بحران پیدا ہو رہا ہے۔ ہر سال تقریباً یہی کہانی دہرائی جاتی ہے، لیکن عوام کے لیے کوئی مستقل حل نظر نہیں آتا۔
کیا چینی واقعی مہنگی ہو رہی ہے، یا یہ ایک مصنوعی بحران ہے جو ہر سال چند مخصوص گروپس کی جیبیں بھرنے کے لیے پیدا کیا جاتا ہے؟
یہ وہ سوال ہے جس کا جواب حکومت اور متعلقہ اداروں کو دینا ہے، یہ سوال تب تک پیچھا کرتا رہے گا جب تک عوام کو ریلیف نہیں ملتا۔