کابل میں واقع ’مجاہدین بازار‘ ایک ایسا مقام ہے جہاں امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد چھوڑے گئے اسلحے کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ یہ بازار ہمیشہ سے جنگ اور عسکری سازوسامان کی خرید و فروخت کے لیے مشہور رہا ہے، لیکن اب یہاں موجود سامان نہ صرف مقامی جنگجوؤں کی ضرورت کو پورا کرتا ہے بلکہ طالبان کی حکومت کے لیے بھی اہمیت رکھتا ہے۔
یہ بازار ہر روز کئی اقسام کے اسلحے، گولہ بارود، اور فوجی سازوسامان سے بھرپور نظر آتا ہے۔ یہ کابل کا سستا اسلحہ بازار ہے۔
یہ سامان افغان جنگ کے دوران امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے استعمال کیا گیا تھا۔ جب امریکا نے 2021 میں افغانستان سے اپنے فوجی انخلا کا آغاز کیا، تو بڑے پیمانے پر فوجی سامان، ٹینک، ہیلی کاپٹر، اسلحہ اور دیگر ضروری سامان کابل اور دیگر شہروں میں چھوڑا گیا۔
اس سامان کا بیشتر حصہ اب ’مجاہدین بازار‘ میں دستیاب ہے، جہاں اسے مختلف گروپوں اور افراد کے ذریعے خرید اور بیچ لیا جاتا ہے۔
امریکا نے افغانستان میں اپنے پچھلے بیس برسوں کی مہنگی ترین جنگ لڑی جس میں تقریبا دو کھرب تیس ارب ڈالر خرچ ہوئے۔ افغانستان سے انخلاء کے وقت امریکا نے اپنا زیادہ تر سازو سامان تباہ کردیا تھا مگر اس کے باوجود تقریبا سات ارب ڈالر کا سازو سامان اور اسلحہ پیچھے رہ گیا۔ ان میں سے زیادہ تر سامان اب افغانستان کے استعمال میں ہے ۔

پاکستانی دفتر خارجہ نے حال ہی میں اس مارکیٹ سے متعلق تشویش کا اظہار کیا ہے، کیونکہ یہ سامان نہ صرف طالبان کے ہاتھ میں جا رہا ہے بلکہ اس کا استعمال دیگر مسلح گروپوں کے لیے بھی ممکن ہے۔ اس فوجی سامان کی مارکیٹ میں قیمتیں مناسب ہونے کی وجہ سے مقامی جنگجوؤں کی نظر میں یہ ایک منافع بخش موقع ہے۔
بی بی سی کی ٹیم نے اس بازار کا دورہ کیا اور یہاں کی صورتحال کا جائزہ لیا۔
جہاں ایک طرف یہ بازار افغانستان میں طالبان کی حکومت کے لیے اہمیت رکھتا ہے، وہیں دوسری طرف اس کے عالمی سیکیورٹی پر بھی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
کابل کے اس بازار میں مختلف اقسام کے ہتھیاروں کے علاوہ، امریکا کی جانب سے چھوڑا گیا مختلف فوجی سازوسامان اور گاڑیاں بھی دستیاب ہیں۔
جنگی طیارے، بکتر بند گاڑیاں، اور جدید ترین مواصلاتی آلات یہاں عام ملتے ہیں۔ یہاں کی قیمتوں کا دارومدار اسلحہ کی حالت اور اس کی نوعیت پر ہوتا ہے، تاہم یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس مارکیٹ کا کردار افغان سیاست اور عالمی سیکیورٹی کے تناظر میں ایک اہم موڑ اختیار کر چکا ہے۔
یوں کابل کا یہ ’مجاہدین بازار‘ صرف افغانستان کے اندر ہی نہیں، بلکہ عالمی سطح پر بھی تشویش کا سبب بن چکا ہے، کیونکہ اس کے اثرات سے ناصرف افغانستان بلکہ پورے خطے کی سیکیورٹی پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔