چین نے پاناما کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو (BRI) سے دستبرداری کے بعد امریکا کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اسے لَیٹن امریکا میں سرد جنگ کی ذہنیت رکھنے والا قرار دیا ہے۔
اس واقعے نے عالمی سیاست میں ایک نیا موڑ لیا ہے جس میں چین کے عالمی اثر و رسوخ کو چیلنج کرنے کے لئے امریکا کی مداخلت کا سنگین پہلو سامنے آیا ہے۔
پاناما، جو 2017 میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو کا حصہ بننے والا پہلا لیٹن امریکی ملک تھا اب اس عالمی انفراسٹرکچر منصوبے سے علیحدگی اختیار کر رہا ہے۔
چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ‘لن جیان’ نے ایک بیان میں امریکا کی شدید مذمت کی اور کہا کہ “امریکہ بیلٹ اینڈ روڈ کے تعاون کو سبوتاژ کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے اور اس کے حملے ایک بار پھر اس کے غاصبانہ رویے کو ظاہر کرتے ہیں۔”
چین نے کہا کہ امریکی وزیرِ خارجہ ‘مارکو روبیو’ کی حالیہ دورے کے دوران دیے گئے بیانات نے چین کے ساتھ لیٹن امریکی ممالک کے تعلقات میں تناؤ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔

روبیو نے پاناما کے اس فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اقدام دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک نیا سنگ میل ثابت ہوگا۔
پاناما کے صدر ‘جوس راؤل مولی’ نوں نے 5 فروری کو اعلان کیا کہ ان کا ملک باضابطہ طور پر بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو سے دستبردار ہو رہا ہے۔
مزید پڑھیں: پاناما نے امریکی دعوے کو مسترد کردیا: کینال پر فیس کی لڑائی میں جرات مندانہ چیلنج
یہ اعلان امریکی وزیرِ خارجہ کی پاناما کی دورے کے بعد آیا جہاں انہوں نے پاناما کینیال کے اسٹریٹجک کنٹرول پر چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کے بارے میں سوالات اٹھائے تھے۔ تاہم، پاناما کے صدر نے اس بات کو مسترد کر دیا کہ امریکا کی طرف سے کوئی دباؤ آیا تھا۔
دوسری طرف چین نے دوبارہ واضح کیا کہ وہ پاناما کی سوورینٹی کے حق میں ہے خاص طور پر پاناما کینیال کے حوالے سے۔
چین کے ترجمان لن جیان نے کہا کہ “ہمیں امید ہے کہ پاناما اپنے طویل المدتی مفادات اور دو طرفہ تعلقات کے تناظر میں صحیح فیصلہ کرے گا اور بیرونی مداخلت کو مسترد کرے گا۔”

(گوگل/فائل فوٹو)
یہ واقعہ چین کی عالمی حکمت عملی اور امریکا کی عالمی اثر و رسوخ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو مزید اجاگر کرتا ہے۔
اس کے باوجود چین کا موقف یہ ہے کہ وہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں میں مدد کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور امریکی دباؤ کے باوجود اس کا عزم مضبوط ہے۔
پاناما کا یہ قدم نہ صرف چین کے عالمی پروجیکٹ کے لئے ایک بڑا دھچکا ہے بلکہ یہ لیٹن امریکا میں بڑھتے ہوئے چینی اثرات اور امریکا کے بڑھتے ہوئے خوف کی عکاسی بھی کرتا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا دیگر لیٹن امریکی ممالک بھی اس مثال پر عمل کرتے ہیں، یا چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: آغا کریم خان کے بعد اسماعیلی شیعہ قیادت کا نیا امام کون ہوگا؟