حکومت کو اقتدار میں آئے ایک برس گزرگیا، مگر عام انتخابات ابھی بھی ناقابلِ قبول ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اور جماعتِ اسلامی ‘فارم 47’ کی حکومت کے خلاف آج ملک بھر میں یومِ سیاہ منارہی ہیں۔
حکومت احتجاج روکنے کے لیے پورا زور لگا رہی ہے، پنجاب بھر میں دفعہ 144 نافذ کر دیا گیا ہےاورہر قسم کے سیاسی احتجاجوں، جلسوں،ریلیوں، دھرنوں اور ایسی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ قیامِ پاکستان سے ہی جمہوریت شدید مشکلات سے دوچار ہے، کبھی مارشل لا نے تو کبھی سیاسی عدم اعتماد نے ملک کی راہ میں رکاوٹیں حائل کیں، جس سے ملک مستحکم نہیں ہوسکا۔
عام انتخابات کے بعد دھاندلی کے الزامات حرفِ عام سننے کو ملتے ہیں، انتخابات کے دوران دھاندلی کے الزامات اور لڑائی فساد ہر دفعہ دکھائی دیتا ہے، جس سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں، جیسے کیا یہ الزامات محض سیاسی چالیں ہیں یا واقعی جمہوری عمل میں سنگین خرابیاں موجود ہیں؟ کیا پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے،یا پھر دھاندلی کے دعوے اسے کمزور کر رہے ہیں؟
پاکستان کے آغاز سے ہی جمہوریت کا سفر ہمیشہ اتار چڑھاؤ کا شکار رہا ہے۔آزادی کے فوراً بعد ملک کو مستحکم بنانے کے لیے جمہوری نظام رائج کرنے کی کوشش کی گئی ، مگر سیاسی عدم استحکام، فوجی آمریت اور عدالتی مداخلت نے اس خواب کو شرمند ۂ تعبیر نہ ہونے دیا۔
پاکستان کے شفاف ترین انتخابات 1970 میں ہونے والے مانےجاتے ہیں، مگر ان انتخابات نے ملک کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا اور ان کے دلوں میں نفرت کا ایسا بیج بویا جو تاحال ختم نہیں ہوسکا۔
اس کے بعد سے ہونے والے تمام انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا گیا، جو آج تک لگتا آرہا ہے۔

واضح رہے کہ عام انتخابات ملک کی جمہوریت کا بنیادی جزو ہوتے ہیں اور ان کا صاف شفاف ہونا انتہائی ضروری ہوتا ہے تا کہ عوام کی پسند کے لائے ہوئے حکمران لائے جائیں اور ملک ترقی کرسکے۔
اس کے برعکس جب انتخابات میں دھاندلی کے الزامات سامنے آتے ہیں، تو عوامی اعتماد متزلزل ہوجاتا ہے اور جمہوریت کمزور پڑ جاتی ہے۔
حالیہ ہوئے فروری 2024 کے عام انتخابات بھی دھاندلی کے الزامات سے محفوظ نہ رہ سکے، مختلف سیاسی پارٹیوں نے ووٹوں کی گنتی، نتائج میں ردو بدل اور پولنگ اسٹیشنوں پر بے ضابطگیوں کے الزامات لگائے، تقریباً ملک کی تمام بڑی جماعتوں نے الیکشنز پر سوالات اٹھائے۔
پاکستان تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی پاکستان کی جانب سے اس دن کو پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن قرار دے دیا گیا۔
پی ٹی آئی کے ایک سربراہ نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ‘2024 کے انتخابات نہیں بلکہ دھاندلی کا ایک نیا طریقہ تھا۔ ہمارے امیدواروں کو انتخابی مہم کے دوران ہی نااہل کرنے کی کوشش کی گئی۔ عوام نے جس طرح ہمیں ووٹ دیے، وہ نتائج میں نظر نہیں آئے۔’
اس کے برعکس انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نے انتخابات کو منصفانہ قرار دیا اور کہا کہ ‘یہ جمہوریت کی فتح ہے، عوام نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔ دھاندلی کا رونا وہی لوگ رو رہے ہیں، جو اپنی شکست تسلیم نہیں کر پا رہے۔
چیف الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بیان دیا کہ انتخابات مکمل طور پر شفاف انداز میں کروائے گئے ہیں، اگر کسی جماعت کی الیکشنز کی شفافیت پر اعتراض ہے تو عدلیہ سے رجوع کرے۔
امیر جماعتِ اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے کہا ہے کہ 8 فروری کا دن ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، اس دن جعلی نمائندوں کو عوام پر مسلط کیا گیااور عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا، فارم 12 کی جگہ فارم 13 دیئے گئے۔

دوسری جانب عالمی مبصرین کی جانب سے بھی انتخابات کی شفافیت پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا گیا، بعض نے انتخابات کو تسلی بخش قرار دیا تو بعض نے اسے تشویشناک قرار دیا۔
پاکستانی عوام گزشتہ کچھ سالوں سے انتخابات اور سیاست کے حوالے سے کافی سنجیدہ نظر آئی ہے، خاص طور پر پی ٹی آئی حکومت کے خلاف عدم استحکام کی تحریک کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر عمران خان، اسٹیبلشمنٹ اور شفاف الیکشن کی ایک ایسی کہانی چلی ہے جس نے ہر شخص کو اس بات سے باخبر کیا کہ قیامِ پاکستان سے ہی ملک میں اسٹیبلشمنٹ جو چاہتی ہے، وہی ہوتا ہے۔
ملکی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کوئی تعلیم یافتہ ہے یا پھر ان پڑھ، وہ اسٹیبلشمنٹ لفظ سے واقف ہے۔
گزشتہ انتخابات نے عوامی اعتماد کو ایسا متزلزل کیا ہےکہ عوام کو محسوس ہوا ہے جیسے ان کے ووٹ کی قدر نہیں، جس کی وجہ سے جمہوری اداروں سے ان کا اعتبار اٹھ گیا ہے۔
ہر دھاندلی کے الزام کے بعد عوامی اعتماد میں کمی آئی، 2013 میں پی ٹی آئی نے دھاندلی کے خلاف احتجاجی دھرنا دیا، جس سے جمہوری عمل پر گہرے اثرات مرتب ہوئے، پھر 2018 کے انتخابات میں ن لیگ نے دھاندلی کا شور مچایا اور اب 2024 میں ایک بار پھر تاریخ نے اپنے آپ کو دوہرایا ہے۔
دھاندلی کے الزامات عدم استحکام لاتے ہیں، جس سے ملک میں سیاسی کشمکش شدت اختیار کرتی ہے،مزید یہ کہ جمہوری ادارے خواہ وہ عدلیہ ہو یا الیکشن کمیشن ان پر سوالات اٹھتے ہیں۔
پاکستان میں جمہوری عمل کو شفاف اور مستحکم بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک انتخابات پر عوام کا مکمل اعتماد بحال نہیں ہوگا، تب تک جمہوریت حقیقی معنوں میں مضبوط نہیں ہوگی۔ اس مقصد کے لیے ریاستی ادارے، سیاسی جماعتیں اور عوام سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

جمہوریت کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ انتخابات کے عمل کو زیادہ شفاف اور قابلِ اعتماد بنایا جائے، جس کے لیے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن خودمختار اور غیر جانبدار ہواور انتخابات کی نگرانی کی جائے۔
جدید دنیا میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال عام ہو گیا ہے، لیکن پاکستان میں اب تک یہ مکمل طور پر لاگو نہیں کیا جاسکا۔ اگر ان کا درست اور شفاف طریقے سے پاکستان میں استعمال کیا جائے تو دھاندلی کے امکانات کو کم کیا جاسکتا ہے۔
مزید یہ کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں انتخابی اصلاحات پر متفق ہوں اور عوام کو بھی اس حوالے سے آگاہ کریں ، تاکہ دھاندلی کے الزامات کے بجائے اصلاحات پر توجہ دی جا سکے، میڈیا اور سول سوسائٹی کو بھی اپنا مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔
جمہوریت کے استحکام کے لیے شفاف اور قابلِ اعتماد الیکشن کروانا انتہائی ضروری ہے، نہیں تو ہوسکتا ہے کہ مستقبل اس کے ایسے اثرات مرتب ہوں جو پاکستان کی تاریخ کی تاریکیوں میں دھکیل دیں، جس کا کوئی بھی حل نہیں ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیاآئندہ الیکشن میں شفاف الیکشن کہیں نظر آتے ہیں یا پھر ماضی کی طرح ایک بار پھر دھاندلی کی گونج ہر جگہ سنائی دیتی ہے، جس سے کئی لوگ پولنگ اسٹیشنوں پر سیاسی پارٹیوں کا ایندھن بنتے ہیں۔