ایم کیو ایم پاکستان میں تنظیمی معاملات کی تقسیم اور پارٹی کے فیصلوں کی مرکز بہادر آباد کے بجائے گورنر ہاؤس سے جاری ہونے پر کارکنان میں شدید غم و غصہ پھیل گیا۔
کارکنوں نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے بہادر آباد کے مرکز پر دھاوا بول دیا اور وہاں احتجاج کیا۔ احتجاج کے دوران “گو گورنر گو” اور “گو ٹیسوری گو” کے نعرے بھی لگائے گئے، جو اس بات کی نشاندہی کر رہے تھے کہ کارکنان پارٹی کے فیصلوں میں شفافیت اور مشاورت کے فقدان سے سخت نالاں ہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان کے مرکزی دفتر میں اس احتجاج کی لہر اس وقت شدت اختیار کر گئی جب کارکنان نے تنظیمی فیصلوں کے حوالے سے مشاورت کے بغیر سرکلر جاری کرنے پر شدید اعتراضات اٹھائے۔
کارکنان نے پارٹی کے رہنماؤں کے فیصلوں کے بارے میں اپنی بے چینی کا اظہار کیا، جنہیں انہوں نے گورنر ہاؤس میں بیٹھ کر منسوخ کر دیا تھا، بجائے اس کے کہ وہ پارٹی کے مرکزی دفتر میں رہ کر کیے جاتے۔
گزشتہ روز تنظیمی عہدوں کے حوالے سے ایک نیا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس نے پارٹی میں مزید اضطراب پیدا کر دیا۔
اس جاری کردہ نوٹیفکیشن میں ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی زیر قیادت مختلف ذمہ داریوں کی تقسیم کی گئی، جس کے تحت سینٹرل آرگنائزنگ کمیٹی کی نگرانی فاروق ستار، انیس قائم خانی اور امین الحق کے ہاتھ میں دی گئی۔
تاہم، پارٹی کے کارکنان نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے یہ کہا کہ انہیں اس بارے میں مشاورت نہیں کی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: 8 فروری 2024 کے الیکشن دھاندلی زدہ تھے جس کے نتیجے میں حکومت بنی، سینیٹر کامران مرتضی
نئے نوٹیفکیشن میں مصطفیٰ کمال، فیصل سبزواری اور رضوان بابر کو لیبر ڈویژن کی نگرانی کا اختیار دیا گیا تھا جبکہ شعبہ خواتین کی ذمہ داریاں نسرین جلیل، انیس قائم خانی اور کیف الوریٰ کو سونپی گئیں۔ تاہم، کارکنان نے ان عہدوں کی تقسیم کو بے بنیاد اور غیر جمہوری قرار دیا۔
کارکنوں کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان میں قیادت کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے اور پارٹی کے تمام اہم فیصلے گورنر ہاؤس میں ہو رہے ہیں، جس کی وجہ سے کارکنان میں بے چینی اور مایوسی پھیل رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کو ایک مضبوط اور جمہوری طریقہ کار اپنانا چاہیے تاکہ فیصلے تمام کارکنوں کی مشاورت سے کیے جائیں، نہ کہ صرف چند افراد کی مرضی سے۔
احتجاج کے دوران کارکنان نے پارٹی رہنماؤں سے ہاتھا پائی بھی کی اور اپنی آواز بلند کی کہ وہ اپنی تنظیمی حیثیت کو تسلیم کرانا چاہتے ہیں۔
اس موقع پر فاروق ستار نے جیونیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خالد مقبول صدیقی کی جانب سے جاری سرکلر مکمل طور پر درست ہے اور اسے پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے 11 اراکین کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کسی کو اس فیصلے پر اعتراض ہے تو وہ پارٹی کے اندر رہ کر اپنی بات کر سکتا ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان میں یہ بحران اس بات کا غماز ہے کہ پارٹی کی اندرونی تنظیمی معاملات اور قیادت کے حوالے سے اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں، جس سے پارٹی کے مستقبل اور مستقبل کے انتخابات پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اس تنازعہ کی شدت کے پیش نظر، سیاسی حلقوں میں اس بات پر غور کیا جا رہا ہے کہ آیا ایم کیو ایم پاکستان اپنی موجودہ حالت میں انتخابی میدان میں کامیاب ہو سکے گی یا نہیں۔
مزید پڑھیں: علی امین گنڈا پور کا بڑا دعویٰ: پی ٹی آئی اور عمران خان نظریہ بن چکے ہیں، ہم اپنا حق لینے تک نہیں رکیں گے