سپاہی مقبول حسین کی کہانی ایک عظیم قربانی کی داستان ہے۔ 1965 کی جنگ میں دشمن کے سامنے ثابت قدم رہتے ہوئے، انہوں نے اپنی جان کی پرواہ نہ کی۔ طویل قید اور اذیتوں کے باوجود، مقبول حسین نے ہمیشہ “پاکستان زندہ باد” کا نعرہ بلند رکھا، جو آج تک زندہ ہے۔
یہ 1965 کی بات ہے جب بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑ چکی تھی۔ سپاہی مقبول حسین جو 1940 میں آزاد کشمیر کے گاؤں ناریاں، تحصیل ترار خیل میں پیدا ہوئے اور پاک فوج کے سپاہی بن کر 1960 میں فوج میں شامل ہوئے۔
سپاہی مقبول آزاد کشمیر رجمنٹ کا حصہ بنے اور 1965 کی جنگ میں حصہ لیا۔
جب آپریشن گلبرگ کے دوران وہ سرینگر کے علاقے میں دشمن کے ساتھ لڑ رہے تھے تو انہیں شدید زخمی ہونے کے باوجود اپنے ساتھیوں کی زندگی بچانے کے لئے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر ایک ڈھکن میں چھپ کر دشمن کو وقت خریدنے کے لئے چھوڑ دیا۔
ان کے ساتھی انہیں چھوڑنا نہیں چاہتے تھے مگر مقبول حسین نے خود کو ڈھکن میں چھپایا تاکہ ان کے ساتھی بچ سکیں۔
دشمن کی افواج نے انہیں گرفتار کر لیا اور بھارتی فوج نے نہ صرف انہیں قیدی جنگ کی فہرست میں شامل نہیں کیا بلکہ ان سے جسمانی اور ذہنی اذیت بھی دی۔
بھارتی فوج کے اہلکاروں نے ان پر شدید تشدد کیا انہیں ‘پاکستان مرد آباد’ کہنے پر مجبور کیا مگر وہ ہمیشہ ‘پاکستان زندہ باد’ ہی جواب دیتے۔
اس کے بعد بھارتی فوج نے ان کی انگلیوں کے ناخن نکالنے کی کوشش کی لیکن مقبول حسین نے کبھی بھی دشمن کے سامنے اپنے عزم کو کمزور نہیں پڑنے دیا۔
ان پر تشدد کی انتہاء اس وقت تک پہنچ گئی کہ بھارتی افواج نے ان کی زبان تک کاٹ ڈالی تاکہ وہ “پاکستان زندہ باد” کا نعرہ نہ لگا سکیں۔ مگر مقبول حسین نے اپنے خون سے “پاکستان زندہ باد” دیواروں پر لکھا جیسے کسی عہد کو اپنی جان سے زیادہ قیمتی سمجھا ہو۔
40 سال بعد وطن کی مٹی میں واپس قدم
یہ 2005 کا سال تھا جب پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک قیدیوں کی منتقلی ہوئی۔ اس منتقلی کے دوران بھارتی سرحد سے ایک ضعیف اور خاموش شخص واپس آیا جس کا جسم اور ذہن طویل اذیتوں سے متاثر تھا۔
اس کی حالت دیکھ کر کسی کو بھی یہ یقین نہیں آیا کہ یہ شخص وہی مقبول حسین ہے جو 1965 میں میدان جنگ میں ایک سپاہی کی حیثیت سے لڑا تھا۔
اس شخص کے جسم سے گفتگو کرنے کی صلاحیت ختم ہوچکی تھی، لیکن جب اس نے اپنے آپ کو دوبارہ شناخت کیا تو اس نے اپنے فوجی نمبر 335139 کو لکھا۔
یہ نمبر نہ صرف اس کی شناخت کا نشان تھا بلکہ اس کی واپسی کا گواہ تھا۔
جب مقبول حسین کا نمبر فوجی ریکارڈ میں چیک کیا گیا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ یہ وہی سپاہی مقبول حسین ہے جو 1965 میں مفقود قرار دیا گیا تھا۔
اس کی کہانی اور بہادری سے آگاہ ہو کر تمام افسران نے اسے خراج تحسین پیش کیا اور اس کا علاج شروع کر دیا۔
یہ داستان اس وقت مزید عیاں ہوئی جب مقبول حسین نے اپنا حال لکھنا شروع کیا۔ اس کے کاغذوں پر وہ کہانیاں چھپیں تھیں جو اس نے 40 سال کی اذیت کے دوران جھیلی تھیں۔
یہ کہانیاں ایک نیا باب بن گئیں اور ان کی بہادری کی گونج نے پورے پاکستان میں ایک نئی روح پھونکی۔
23 مارچ 2009 کو سپاہی مقبول حسین کو پاکستان کی سب سے بڑی عسکری اعزاز ‘ستارۂ جرات’ سے نوازا گیا۔
یاد رہے کہ ان کی زندگی کو ایک ڈرامہ سیریز ‘سپاہی مقبول حسین’ کے ذریعے دنیا کے سامنے لایا گیا جسے آئی ایس پی آر اور انٹر فلو کمیونیکیشنز نے مشترکہ طور پر تیار کیا۔
مقبول حسین نے ہمیشہ اپنے وطن اور اس کی عزت کے لئے قربانی دی۔ ان کی جدوجہد اور قربانی کی ایک نئی نسل کو تعلیم اور حوصلہ دینے کا باعث بنی۔
مقبول حسین 28 اگست 2018 کو دنیا فانی سے رخصت ہو گئے، لیکن ان کی یادیں ہمیشہ دلوں میں زندہ رہیں گی۔ ان کی نماز جنازہ 29 اگست کو ان کے آبائی گاؤں ناریاں میں مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مقبول حسین کی والدہ کی قبر گاؤں کے دروازے کے قریب تھی تاکہ وہ اپنے بیٹے کی واپسی کے منتظر رہیں، اور جب مقبول حسین واپس لوٹے تو وہ ایک حقیقت بن گئی۔
یہ داستان ایک جرات مند، بہادر اور عظیم سپاہی کی ہے جس نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی قیمت پر بھی اپنے وطن کی عزت کو نہیں بیچا۔
یہ داستان ہمیں بتاتی ہے کہ حقیقت میں “پاکستان زندہ باد” وہ نعرہ نہیں ہے جو زبان سے نکلا ہو بلکہ یہ وہ جذبہ ہے جو دلوں میں بستا ہے چاہے اس کی قیمت کتنی بھی ہو۔
مزید پڑھیں: دیامر بھاشا ڈیم:زمین کے معاوضے کی ادائیگی مکمل، مقامی کمیونٹی کے لیے ترقی کے دروازے کھل گئے