سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے ریفرنس کے حوالے سے اہم بیان دیا ہے جس سے ملکی سیاسی اور عدلیہ کے معاملات میں نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے.
سپریم کورٹ میں نئے ججز کی تقریب حلف برداری کے دوران صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “ریفرنس جب آئے گا تب دیکھی جائے گی، جب کچھ غلط کیا ہی نہیں تو ریفرنس کا ڈر کیوں ہونا؟ اللہ مالک ہے۔”
اس موقع پر صحافیوں نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ کے بعض ججز کے کام کرنے کے حوالے سے شکوک ہیں، جس پر جسٹس منصور نے چیلنج کیا کہ “مقدمات نمٹانے کی شرح دیکھ لیں، کس کے کتنے فیصلے قانون کی کتابوں میں شائع ہوئے، سب کچھ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔”
ان کا کہنا تھا کہ تمام ججز کے ساتھ ان کے تعلقات دوستانہ ہیں اور کسی کے ساتھ ذاتی عناد یا اختلاف نہیں، مگر کچھ باتیں ایسی ہیں جو چھپائی نہیں جا سکتیں۔
یہ بیان اس وقت آیا ہے جب وزیراعظم کے مشیر رانا ثناء اللّٰہ نے دعویٰ کیا تھا کہ سپریم کورٹ کے دو سینئر ججز کے طرز عمل کی بنا پر ان کے خلاف ریفرنس بھیجا جا سکتا ہے۔
تاہم سینیٹر عرفان صدیقی نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کا ججز کے خلاف کوئی ریفرنس بھیجنے کا ارادہ نہیں ہے۔
جسٹس منصور کا یہ بیان کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ کیا حکومت عدلیہ کے خلاف کوئی قدم اٹھانے جا رہی ہے؟ کیا یہ اختلافات عدلیہ میں بڑھتے ہوئے تنازعات کا اشارہ ہیں؟
ان سوالات کے جواب میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا لیکن ایک بات واضح ہے کہ ملک کی عدلیہ کی اندرونی سیاست میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے اور اس کا اثر مستقبل میں سپریم کورٹ کے فیصلوں پر بھی پڑ سکتا ہے۔
مزید پڑھیں:سپریم کورٹ کے 7 نئے ججز نے حلف اٹھا لیا