Follw Us on:

سعودی عرب میں امریکا اور یوکرین کے درمیان مذاکرات شروع ہوگئے

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک

یوکرین اور امریکی حکام کے درمیان سعودی عرب میں مذاکرات کا آغاز کیا، جس کا مقصد روس کے ساتھ جنگ ​​کے خاتمے کی راہ تلاش کرنا تھا۔ یہ بات چیت کیف کی افواج کی جانب سے ماسکو پر اب تک کے سب سے بڑے ڈرون حملے کے چند گھنٹے بعد شروع ہوئی۔

یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کو امید ہے کہ جدہ میں ہونے والی بات چیت کے ذریعے امریکا کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ مستحکم کیا جا سکے گا، خاص طور پر گزشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ایک کشیدہ ملاقات کے بعد۔ زیلنسکی نے روس کے ساتھ فضائی اور سمندری جنگ بندی کی تجویز بھی دی ہے، تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ وہ جنگ کے جلد خاتمے کے لیے عملی اقدامات کر رہے ہیں۔ یہ تجویز ٹرمپ کے اس بیان کے بعد سامنے آئی ہے، جس میں انہوں نے زیلنسکی پر امن قائم کرنے میں سنجیدہ نہ ہونے کا الزام لگایا تھا اور انہیں روس کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔

امریکا، جو 2022 میں روسی حملے کے بعد سے یوکرین کا سب سے بڑا اتحادی رہا ہے، نے حالیہ مہینوں میں اپنی پالیسی میں تبدیلی کی ہے۔ اس نے فوجی امداد روک دی ہے اور یوکرین کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ محدود کر دی ہے، جس سے کیف پر شدید دباؤ بڑھ گیا ہے۔ زیلنسکی نے مذاکرات سے قبل ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ وہ عملی نتائج کی امید رکھتے ہیں اور یوکرین کا موقف مکمل طور پر تعمیری ہوگا۔

دوسری جانب، روسی حکام کے مطابق، راتوں رات یوکرین نے ماسکو پر 91 ڈرونز کے ذریعے ایک بڑا حملہ کیا، جس میں کم از کم ایک شخص ہلاک ہوا، آگ بھڑک اٹھی، اور متعدد ہوائی اڈے بند کر دیے گئے، جس کے نتیجے میں درجنوں پروازیں منسوخ کر دی گئیں۔ ماسکو کا دعویٰ ہے کہ اس نے مجموعی طور پر 337 ڈرونز مار گرائے، جبکہ یوکرینی افواج نے یہ حملہ روس کے مسلسل میزائل حملوں کے جواب میں کیا، جن میں ہفتے کے روز کم از کم 14 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

زیلنسکی اس وقت اپنے یورپی اتحادیوں سے اپنی جنگ بندی کی تجویز پر حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق، اس تجویز سے یہ معلوم کیا جا سکے گا کہ آیا ماسکو واقعی جنگ ختم کرنا چاہتا ہے یا نہیں۔ یوکرین نے امریکی تعلقات کی بحالی کے لیے بھی کوششیں تیز کر دی ہیں، خاص طور پر اس وقت جب ٹرمپ نے دوطرفہ معدنیات کے معاہدے پر دستخط کرنے سے گریز کیا اور کیف کی طرف سے واشنگٹن سے حفاظتی ضمانتوں کے حصول کی کوششوں کو نقصان پہنچا۔

یہ معاہدہ، جس پر منگل کے روز ہونے والی بات چیت میں غور کیا جانا ہے، 2022 سے یوکرین کے لیے دی جانے والی امریکی فوجی امداد کے تسلسل اور واشنگٹن کی مستقل حمایت کے لیے نہایت اہم ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے جدہ جاتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کا بنیادی مقصد یوکرین کے موقف کو سمجھنا اور یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ کن شرائط پر رعایت دینے کو تیار ہے۔ ان کے مطابق، جنگ بندی کے لیے دونوں فریقوں کو کچھ نہ کچھ قربانیاں دینا ہوں گی۔

ان مذاکرات میں امریکی قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز بھی شریک ہیں، جبکہ یوکرینی وفد کی قیادت زیلنسکی کے اعلیٰ معاون اینڈری یرماک کر رہے ہیں۔ تاہم، زیلنسکی خود اس میں شریک نہیں ہیں، حالانکہ وہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کے لیے پیر کو سعودی عرب میں موجود تھے۔

یوکرینی وزارت خارجہ نے ٹیلی گرام پر ایک پوسٹ میں کہا کہ “یوکرین اور امریکی وفود کے درمیان ایک میٹنگ جدہ، سعودی عرب میں شروع ہو رہی ہے۔” اس بیان کے ساتھ ایک ویڈیو بھی پوسٹ کی گئی، جس میں سینئر یوکرینی حکام کو مذاکرات کے لیے ایک میٹنگ روم میں داخل ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔

اس سے قبل، مشرق وسطیٰ کے لیے ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف، جو یوکرینی سفارت کاری کے مسودے پر کام کر رہے ہیں، نے امید ظاہر کی کہ امریکہ اور یوکرین کے درمیان معدنیات کے معاہدے پر جلد دستخط ہو جائیں گے۔ اطلاعات کے مطابق، وٹکوف مستقبل قریب میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کے لیے ماسکو جانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس