ٹرمپ انتظامیہ نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ وہ ایک عدالتی فیصلے کو معطل کرے جس کے تحت ہزاروں وفاقی ملازمین کو دوبارہ بھرتی کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ یہ ملازمین بڑے پیمانے پر برطرفیوں کے ذریعے وفاقی حکومت کو نمایاں طور پر کم کرنے کی حکمتِ عملی کے تحت نکالے گئے تھے۔
عالمی خبر ارساں ادارے رائٹرز کے مطابق ہنگامی اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ جج کو یہ اختیار نہیں کہ وہ ایگزیکٹو برانچ کو 16 ہزارکے قریب پروبیشنری ملازمین کی دوبارہ بھرتی پر مجبور کرے۔ کیلیفورنیا میں قائم جج نے قرار دیا تھا کہ برطرفیاں وفاقی قوانین کے مطابق نہیں ہوئیں اور انہوں نے مقدمے کی کارروائی مکمل ہونے تک ان ملازمین کو دوبارہ تقرری کی پیشکش کرنے کا حکم دیا تھا۔
اسی اپیل میں سپریم کورٹ سے یہ بھی درخواست کی گئی ہے کہ وہ ان وفاقی ججوں کی بڑھتی ہوئی مداخلت کو محدود کرے جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وسیع تر ایجنڈے میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ اپیل میں کہا گیا ہےکہ صرف یہ عدالت ہی بین الادارتی اختیارات کی اس کھینچا تانی کو ختم کر سکتی ہے۔
امریکہ کا وفاقی عدالتی نظام ٹرمپ انتظامیہ کے لیے ایک اہم چیلنج بن چکا ہے، کیونکہ ریپبلکن اکثریت والی کانگریس یا تو ٹرمپ کے اقدامات کی حمایت کر رہی ہے یا خاموش ہے۔ اب تک وفاقی عدالتیں ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف تین درجن سے زائد فیصلے سنا چکی ہیں، جن میں وفاقی قوانین کی خلاف ورزیوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔
یہ عدالتی فیصلے مختلف معاملات پر محیط ہیں، جن میں شہریت کے پیدائشی حق میں تبدیلیاں، وفاقی اخراجات، اور ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق شامل ہیں۔
ٹرمپ کے غیر معمولی تعداد میں جاری کیے گئے ایگزیکٹو آرڈرز کا معاملہ بظاہر سپریم کورٹ میں متعدد سماعتوں کی طرف بڑھ رہا ہے، جسے انہوں نے اپنی پہلی مدت میں تین ججز تعینات کر کے ایک نئی شکل دی۔ تاہم، اب تک عدالت کی نو رکنی بینچ نے ایسے معاملات میں نسبتاً محتاط اقدامات ہی اٹھائے ہیں۔
جس حکم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے، ان دو عدالتی فیصلوں میں شامل ہے جو ایک ہی دن سنائے گئے تھے اور جن میں ریپبلکن انتظامیہ کی جانب سے پروبیشنری ملازمین کی برطرفیوں میں قانونی مسائل کی نشاندہی کی گئی تھی۔