13 اپریل کو جب امریکا سمیت پورا مغربی نصف کرہ “پین-امریکا ڈے” مناتا ہے تو اس دن کی گہری تہہ میں صرف رنگا رنگ تقاریب یا جھنڈوں کی سجاوٹ نہیں، بلکہ ایک ایسا پیغام پوشیدہ ہوتا ہے جو اتحاد، یکجہتی اور بھائی چارے کا عکاس ہے۔
یہ دن محض ایک روایت نہیں بلکہ اس خیال کا جشن ہے کہ امریکا، یعنی شمالی، وسطی اور جنوبی حصے کے تمام ممالک باہمی احترام اور تعاون کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔
لیکن جیسے جیسے یہ دن منایا جا رہا ہے ویسے ہی ایک سوال ابھرتا ہے کہ کیا آج کا امریکا وہی امریکا ہے جس نے پین-امریکن ڈے کے جذبے کو جنم دیا تھا؟
1930 کی دہائی میں جب “انٹرنیشنل یونین آف امریکن ریپبلکس” کی بنیاد رکھی گئی تو امریکا عالمی قیادت کا وہ چہرہ بن کر ابھرا جو ترقی، تعاون اور امن کا ترجمان سمجھا جاتا تھا۔
پین-امریکن ڈے اس تصور کی علامت بنا کہ مختلف ثقافتیں، زبانیں اور نظریات رکھنے والے ممالک ایک جھنڈے تلے اکٹھے ہو سکتے ہیں اور یہ جھنڈا صرف امریکا کا نہیں بلکہ پورے براعظم کی وحدت کا ہے۔
اور پھر آیا وہ وقت جب امریکا “مانیٹر” بن گیا۔

پھر وقت بدلا، سرد جنگ کی آندھی چلی اور امریکا کا کردار ’نگران‘ سے ’حاکم‘ میں ڈھلنے لگا۔ ویت نام، عراق، افغانستان… ایک کے بعد ایک جنگ اور ہر جنگ کے پیچھے وہی پرانا جواز “دنیا کو بچانا” ہے۔ لیکن ان دعووں کے بیچ امریکا کی اپنی معیشت، فوجی نفسیات اور عوامی رائے بکھرتی چلی گئی۔
افغانستان کی جنگ نے نہ صرف لاکھوں زندگیاں نگلیں بلکہ امریکی سپاہیوں کو نفسیاتی اذیت کے ایسے گڑھے میں دھکیل دیا جہاں سے نکلنا آج تک ممکن نہ ہو سکا۔
اس کے علاوہ روس کے خوف میں مبتلا امریکا نے یوکرین کے ذریعے ایک اور جنگ چھیڑ دی، یہ سوچے بغیر کہ ہر بار ’جمہوریت بچانے‘ کے نام پر دنیا کا کون سا حصہ جلایا جا رہا ہے۔
2016 میں جب ڈونلڈ ٹرمپ پہلی بار اقتدار میں آیا تو یہ واضح ہو چکا تھا کہ امریکا اب “عالمی محافظ” کے خول سے باہر نکل رہا ہے۔
ٹرمپ نے یہ خول ایسے پھاڑا کہ پوری دنیا سکتے میں آ گئی۔ اس کی پالیسیز ایک بزنس مین کے ذہن کی عکاسی تھیں، نفع ہو تو دوستی، نقصان ہو تو دشمنی۔
امپورٹس پر پابندیاں، چین پر اقتصادی حملے، انڈیا کے ساتھ سخت تجارتی شرائط، یورپ کی بے رخی، نیٹو پر تنقید اور یہ سب اس بات کی علامت بن گئے کہ امریکا اب صرف امریکا کے لیے سوچتا ہے۔
پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر سید محمد غلام حسین (ماہر سیاسیات) نے کہا کہ “ٹرمپ کی پالیسیز نے دنیا کو تقسیم کیا ہے، خاص طور پر مسلم ممالک کو۔ انکا کہنا تھا کہ ٹرمپ کا ‘امریکا فرسٹ’ نعرہ دنیا کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔ لیکن وہ مسلمانوں کو یہ سکھا گیا کہ عالمی سیاست میں جذبات نہیں، صرف مفادات چلتے ہیں۔”

اس سے قبل سابق صدر جوبائیڈن کے دور حکومت میں امید کی ایک کرن دکھائی دی تھی جب یوکرین کی جنگ میں بھرپور حمایت، روس کے خلاف موقف اور دنیا کے ساتھ سفارتی روابط کی بحالی نے ایک بار پھر امریکا کو اس کے اصل چہرے کی طرف لوٹانے کی کوشش کی۔
لیکن اچانک منظرنامہ ہی بدل گیا، بائیڈن بیمار ہوتے ہیں تو قیادت کمزور پڑتی ہے اور ٹرمپ ایک بار پھر سیاسی میدان میں کود پڑتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب یوکرین کو اپنے وجود کی جنگ لڑنی ہے مگر ٹرمپ روس کی حمایت میں نرم گوشہ دکھانے لگتے ہیں۔
یوکرینی صدر زیلنسکی کا اعتماد لرزنے لگا، یورپ میں بے چینی بڑھنے لگی اور دنیا کو ایک بار پھر وہی امریکا دکھائی دیتا ہے جو صرف اپنی سوچتا ہے۔
ٹرمپ اب کی بار ایک مختلف انداز میں واپس آیا ہے اور وہ صرف سیاستدان نہیں بلکہ ایک کاروباری حکمت عملی کے ساتھ عالمی شطرنج پر چالیں چل رہا ہے۔
‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے شعبہ سیاسیات کے پروفیسر انور مسعود نے کہا ہے کہ “امریکا فرسٹ” پالیسی نے نہ صرف امریکا کے عالمی اتحادیوں کو الجھن میں ڈالا بلکہ انسانی حقوق کے لیے امریکا کے دعووں کو بھی مشکوک بنا دیا ہے۔ ٹرمپ کی واپسی کی صورت میں یہ پالیسی دوبارہ زور پکڑتی دکھائی دے رہی ہے، خصوصاً ایسے وقت میں جب دنیا پہلے ہی غزہ میں انسانی المیے، یوکرین میں روسی جارحیت اور چین سے معاشی تناؤ جیسے بحرانوں سے نبرد آزما ہے۔
روس سے روابط، چین پر دباؤ، غزہ میں اسرائیل کی کھلی حمایت، یہ سب اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ٹرمپ کی نظریں صرف امریکا کی معیشت پر ہیں چاہے اس کے لیے انسانی حقوق، عالمی قوانین یا پرانی دوستیوں کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔

ڈاکٹر غلام حسین نے مزید کہا کہ “ٹرمپ نے دنیا کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس نے دنیا کو نفرت، نسل پرستی میں تقسیم کردیا ہے۔ یہاں تک امریکا میں اُس کے دور میں مسلمانوں کو دہشت گرد اور ترقی پذیر ممالک کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔ وہ لیڈر کم اور بدتمیز انسان زیادہ لگتا ہے۔”
پین-امریکن ڈے کی روح اب دھند میں چھپتی جا رہی ہے۔
آج جب لوگ پین-امریکن ڈے مناتے ہیں تو یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی امریکا وہ ملک ہے جو اتحاد کا علمبردار تھا؟ یا اب وہ صرف ایک ایسا تاجدار بن چکا ہے جو دوسروں کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے؟
پروفیسر انور مسعود نے کہا ہے کہ پین-امریکن ڈے کا پیغام برابری اور باہمی احترام ہے، لیکن موجودہ خارجہ پالیسی “پہلے امریکا” کے نعرے کے نیچے صرف مخصوص مفادات کی حفاظت کرتی ہے۔ یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ امریکا بین الاقوامی ہم آہنگی سے زیادہ طاقت کے توازن کو فوقیت دیتا ہے، جو پین-امریکن فلسفے کی نفی ہے۔
ٹرمپ کا “گریٹر امریکا” کا خواب، کیا واقعی اس قوم کو بلندیوں تک لے جائے گا یا پھر اس خواب میں چھپی خود غرضی، امریکی ریاستوں کو ایک دوسرے سے دور کر دے گی؟
پین-امریکن ڈے ہر سال یاد دلاتا ہے کہ اتحاد، قربانی، اور ہم آہنگی ہی ترقی کا راستہ ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آج کا امریکا اس پیغام کو سننے کے لیے تیار ہے؟