غزہ پر اسرائیلی بمباری کے مسلسل جاری سلسلے اور بے گناہ فلسطینیوں کے قتلِ عام نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ 7اکتوبر کو شروع ہونے والی نسل کشی کی یہ جنگ تاحال ختم نہیں ہوسکی اور وقت کے ساتھ اسرائیل حملوں نے شدت پکڑ لی ہے، جہاں بچوں، عورتوں، بزرگوں اور عام شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
گزشتہ روز یونیسف کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 18 مارچ سے شروع ہونے والے نئے جنگی جنون میں 322 سے زائد بچے شہید اور 609 کے زخمی ہوئے ہیں، مگر عالمی برادری ابھی تک خاموش ہے اور یہ خاموشی ایک بڑا سوالیہ نشان بن چکی ہے۔
اقوامِ متحدہ سمیت بڑی طاقتیں محض تشویش کا اظہار کر کے خاموش ہو جاتی ہیں، جب کہ زمین پر انسانی جانیں روزانہ کی بنیاد پر ضائع ہو رہی ہیں۔
یونیسف کی رپورٹ کے مطابق 7 اکتوبر سے اب تک 18,000 بچے شہید، 21,000 ملبے تلے دب کر لاپتہ، 34,000 زخمی، 15,000 زندگی بھر کے لیے معذور اور 39,000 سے زائد بچوں یتیم و مسکین ہوگئے ہیں۔ 17,000 بچے ایسے ہیں جن کے والدین جاں بحق ہوچکے ہیں۔
18 مارچ کو اسرائیل نے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسا شب خون مارا جس کے نتیجے میں 400 سے زائد بے گناہ افراد مارے گئے۔مگر اس پر بھی تشویش کے علاوہ کچھ بھی دیکھنے کو نہ ملا۔

پاکستان ہمیشہ فلسطین کے مسئلے پر ایک واضح اور دوٹوک مؤقف رکھتا آیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور انسانی حقوق کی بنیاد پر پاکستان فلسطینیوں کی حمایت کرتا ہے ۔ 23 نومبر 2023 کو سابق صدر عارف علوی نے کہا تھا کہ پاکستان فلسطین کے دوریاستی حل کی بھرپور حمایت کرتا ہے، مگر عوام کی جانب سے فلسطین کے دوریاستی حل کو مکمل طور پر مسترد کیا گیا ہےاور بعض حلقوں نے کہا ہے کہ جو فلسطین کے دوریاستی حل کی بات کرتا ہےگویا وہ چپکے چپکے سے اسرائیل کی حمایت کرتا ہے۔
‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر اسحاق جان شحانی کا کہنا تھا کہ موجودہ دور میں فلسطین کا عملی حل صرف اور صرف دو ریاستی منصوبے پر عمل کرنے سے ہوگا ۔
وزیراعظم، وزیر خارجہ اور دیگر اعلیٰ حکام کئی بار عالمی برادری سے اپیل کر چکے ہیں کہ اسرائیلی جارحیت کو فوری طور پر روکا جائے اور فلسطینی عوام کو ان کے بنیادی حقوق دیے جائیں۔
غزہ کی اس بدترین صورتِ حال میں، مسلم دنیا کا ردعمل عمومی طور پر مایوس کن رہا ہے۔ کچھ ممالک نے زبانی مذمت پر اکتفا کیا، تو بعض نے مکمل خاموشی اختیار کی۔ پاکستان میں اس رویے پر عوامی سطح پر غم و غصہ پایا جاتا ہے، کیونکہ مسلمانوں کی امتِ واحدہ کا تصور اس وقت بکھرا ہوا نظر آتا ہے۔ جس سے اس سوال نے جنم لیا ہے کہ کیا واقعی مسلم ممالک کے پاس اتنی سفارتی و اقتصادی طاقت نہیں کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈال سکیں؟

مسلم دنیا کے باہمی اختلافات فلسطینی کاز کو کتنا نقصان پہنچا رہے ہیں؟
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) جسے مسلم دنیا کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم تصور کیا جاتا ہے، اس وقت غیرفعال نظر آتی ہے۔ ایک دو بیانات جاری کر دینا کافی نہیں، کیونکہ زمین پر حقیقت یہ ہے کہ فلسطینیوں کا خون بہہ رہا ہے، ان کے گھروں کو ملبے میں بدلا جا رہا ہے اور دنیا تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ پاکستان نے او آئی سی میں ایک فعال کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا باقی ممالک بھی اسی سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں؟
پروفیسر اسحاق جان نے کہا ہے کہ او آئی سی کے تمام ممالک نے ٹیکنالوجی میں مطلوبہ ترقی اور زمینی حقائق کی تبدیلیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے خود میں کوئی خاطر خواہ اور حیران کن عملی قدم ابھی تک نہیں اٹھایا تو اس سے یہ توقع ایک مردے گھوڑے میں جان ڈالنے کے برابر ہوگی۔
پاکستانی عوام اور میڈیا نے بارہا یہ سوال اٹھایا ہے کہ عالمی میڈیا، بالخصوص مغربی میڈیا، فلسطینیوں کی قربانیوں کو کیوں نظر انداز کرتا ہے؟ کیوں ہمیشہ اسرائیل کا بیانیہ غالب رکھا جاتا ہے؟ میڈیا رپورٹس اور خصوصی پروگرامز میں بارہا یہ بات اجاگر کی گئی کہ دنیا کا میڈیا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر دوہرا معیار اپنا رہا ہے۔ اگر یہی کچھ کسی مغربی ملک میں ہوتا تو کیا ردِعمل مختلف نہ ہوتا؟
مغربی میڈیا کی غیر جانبداری کو توڑنے کےلیے مسلم میڈیا ہاؤسز کو کیا حکمتِ عملی اپنانی چاہیے؟
ایک اور سوال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ جب دنیا یوکرین کے مسئلے پر متحد ہو کر روس کے خلاف بیانات اور پابندیاں عائد کر سکتی ہے، تو فلسطین کے معاملے پر ایسی یکجہتی کیوں نظر نہیں آتی؟ کیا فلسطینی مسلمانوں کی جان اتنی بے وقعت ہے؟ پاکستان میں سول سوسائٹی، انسانی حقوق کے کارکن، وکلاء اور طلبہ تنظیمیں ان سوالات کو مسلسل اٹھا رہے ہیں۔

پروفیسر اسحاق جان شحانی نے کہا ہے کہ پاکستان اپنے دوست چین کو ساتھ ملا کر ایک ایٹمی ملک اور عالمی سلامتی کونسل کا ایک غیر مستقل رکن ہونے کے ناطے ایک سفارتی سطح پہ کوششیں کر کے عالمی برادری کو اپنی بات سننے پر سوچنے کی طرف موڑ سکتا ہے۔ اس لیے پاکستان کو چاہیے کہ چائنہ کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل میں بھر پور آواز اٹھائے ۔
ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے، سیمینارز، اور سوشل میڈیا پر بھرپور مہم چلائی جا رہی ہے۔ نوجوان نسل خاص طور پر فلسطینیوں کے حق میں بھرپور آواز اٹھا رہی ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں “غزہ کے لیے انصاف” کے عنوان سے ریلیاں نکالی جا چکی ہیں، جن میں عوام کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔
پاکستانی عوام کی آواز کو عالمی سطح پر پہنچانے کے لیے کیا اقدامات ضروری ہیں؟
پاکستان کے عوام اور تجزیہ نگاروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ صرف بیانات اور مذمتی قراردادیں کافی نہیں۔ کیا وقت نہیں آ گیا کہ مسلم ممالک مل کر ٹھوس سفارتی، تجارتی اور بین الاقوامی سطح پر اقدامات اٹھائیں؟ کیا او آئی سی کو اقوامِ متحدہ میں فلسطینیوں کے لیے ایک مشترکہ موقف پیش نہیں کرنا چاہیے؟
پروفیسر اسحاق جان نے کہا ہے کہ اسلامی ممالک میں اتحاد کا ایک فقدان ہے اگر وہ صحیح معنوں میں یکجا ہو جائیں تو پھر سب ممکن ہے کیونکہ علامہ اقبال نے کہا تھا : ”تہراں ہو اگر عالم مشرق کا جنیوا۔۔۔۔۔شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے”
کیا فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے لیے عالمی سطح پر عوامی سفارت کاری کو فروغ دینا چاہیے؟
دوسری جانب سوشل میڈیا پر غزہ کے لیے آواز کو دبایا جارہا ہے، جس میں میٹا پلیٹ فارمز پیش پیش ہیں، جہاں اسرائیل کے خلاف کچھ نہیں لکھا جاسکتا اور غزہ لفظ لکھنے پر بھی اکاؤنٹ بند کیے جارہیں، جس نے ان پلیٹ فارمز پر بھی سوال اٹھایا ہے کہ یہ کھلے عام اسرائیلی جارحیت کی حمایت کررہے ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ مسلم دنیا اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرے، ورنہ نہ صرف فلسطین بلکہ دیگر مسلم خطے بھی اسی طرح متاثر ہوتے رہیں گے۔ مالدیپ نے اسرائیلی پاسپورٹ رکھنے والوں کا داخلہ بند کردیا ہے، ترکی کی قومی اسمبلی کے اسپیکر نے پاکستان سمیت متعدد اسمبلیوں کو بلایا ہے، تاکہ فلسطین مسئلےپر سنجیدگی سے بات کی جاسکے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان، مسلم ممالک اور عالمی میڈیا کس طرح نسل کشی کی اس جنگ میں اپنا کردار ادا کرتا ہے؟