امریکا کی معروف یونیورسٹی ہارورڈ ایک بار پھر حکومت کے نشانے پر آ گئی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر ہارورڈ نے غیر ملکی طلباء سے متعلق معلومات فراہم نہ کیں تو اس کی غیر ملکی طلباء کو داخلہ دینے کی اجازت منسوخ کر دی جائے گی۔
محکمہ داخلی سلامتی کی سیکرٹری، کرسٹی نوئم، نے بدھ کے روز نہ صرف دو وفاقی گرانٹس، جن کی مالیت 2.7 ملین ڈالرز تھی، ان کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا بلکہ ہارورڈ کو ایک سخت لہجے میں خط بھی لکھا۔
اس خط میں یونیورسٹی سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ 30 اپریل تک ان غیر ملکی طلباء کی تفصیلات فراہم کرے جو مبینہ طور پر “غیر قانونی اور پرتشدد سرگرمیوں” میں ملوث ہیں۔
کرسٹی نوئم نے بیان دیا کہ “اگر ہارورڈ یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ وہ اپنی رپورٹنگ ذمہ داریوں پر مکمل عمل کر رہا ہے تو اسے غیر ملکی طلباء داخل کرنے کی اجازت کا حق کھو دینا پڑے گا۔”
یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکا کی مختلف جامعات، بالخصوص ہارورڈ، میں غزہ پر اسرائیلی حملوں کے خلاف طلباء کے مظاہرے زور پکڑ چکے ہیں۔
ان مظاہروں کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے حامی “ملک دشمن، شدت پسند اور یہود دشمن” قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ مظاہرین، جن میں کئی یہودی طلباء اور انسانی حقوق کے کارکن بھی شامل ہیں، انہوں نے اس بیانیے کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ کی صورت حال پر عالمی برادری کی خاموشی: مسلم ممالک کا کیاکردار ہونا چاہیے؟
ہارورڈ یونیورسٹی نے نوئم کے خط پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ “ہم قانون کی پاسداری کرتے ہیں لیکن اپنی خود مختاری اور آئینی حقوق سے دستبردار نہیں ہوں گے۔”
ٹرمپ انتظامیہ نے صرف گرانٹس نہیں روکی بلکہ اب IRS (محکمہ محصولات) کے ذریعے ہارورڈ کی ٹیکس فری حیثیت ختم کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔
سی این این کے مطابقIRS جلد ہی اس بارے میں حتمی فیصلہ سنا سکتا ہے۔ ہارورڈ کا کہنا ہے کہ اس طرح کا اقدام نہ صرف غیر قانونی ہوگا بلکہ مالی امداد اور میڈیکل ریسرچ جیسے شعبوں کو بھی شدید نقصان پہنچائے گا۔
ٹرمپ انتظامیہ کی تعلیمی اداروں کے خلاف یہ مہم صرف ہارورڈ تک محدود نہیں رہی۔ کولمبیا، پرنسٹن، براؤن، کارنیل اور نارتھ ویسٹرن جیسی بڑی یونیورسٹیوں کے فنڈز بھی یا تو منجمد کیے جا چکے ہیں یا ان پر پابندی کی تلوار لٹک رہی ہے۔
ان اقدامات کی آڑ میں DEI (ڈائیورسٹی، ایکوئٹی اور انکلوژن) پروگرامز، ٹرانس جینڈر پالیسیز اور ماسک پہننے جیسے مسائل کو بھی ہدف بنایا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کے علمبردار اسے آزادی اظہار، تعلیمی خود مختاری اور نسلی و مذہبی اقلیتوں کے خلاف ایک خطرناک کریک ڈاؤن قرار دے رہے ہیں۔
اسلاموفوبیا اور عرب مخالف جذبات پر بڑھتی ہوئی خاموشی بھی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ کیا ہارورڈ جیسی قدیم و باوقار یونیورسٹی، جس کا سرمایہ 53.2 ارب ڈالر سے زائد ہے حکومت کے اس دباؤ کے آگے جھک جائے گی؟ یا پھر آئینی حقوق کے دفاع میں کھڑی ہو کر ایک نئی جدوجہد کی بنیاد رکھے گی؟
مزید پڑھیں: برطانیہ میں مسلمانوں کی 85 قبروں کی بےحرمتی، پولیس نے اسلاموفوبک جرم قرار دے دیا