April 21, 2025 10:50 pm

English / Urdu

Follw Us on:

اقبالؔ: خواب دیکھنے والا جو زمانے کو جگا گیا!

زین اختر
زین اختر

وہ صرف ایک شاعر نہ تھا، وہ ایک خواب دیکھنے والا تھا۔ ایسا خواب جس نے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ایک قوم کے دل میں آزادی کی چنگاری روشن کی۔ جب زمانہ سوتا تھا، وہ جاگتا تھا؛ جب لوگ مایوس ہوتے تھے، وہ امید کے دیے جلاتا تھا۔ اُس کی آواز میں صدیوں کی سچائیاں چھپی تھیں اور اُس کے الفاظ میں بیداری کی طاقت۔ وہ علامہ محمد اقبال تھا۔

اقبال کی شاعری کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ دل میں اترتی ہے اور دماغ کو روشن کرتی ہے۔ ان کا تصورِ “خودی” محض ایک نظریہ نہیں، بلکہ ایک انقلابی سوچ تھی۔ انہوں نے مسلمان نوجوان کو اس کی کھوئی ہوئی شناخت یاد دلائی، اسے بتایا کہ وہ دنیا کی تقدیر بدل سکتا ہے، اگر وہ اپنی “خودی” پہچان لے۔

اقبال کی زندگی کے کئی پہلو ایسے ہیں جو عام طور پر سامنے نہیں آتے، لیکن وہ ان کے انسان دوست اور غوروفکر سے بھرپور مزاج کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایک دلچسپ واقعہ اُس وقت کا ہے جب وہ یورپ میں زیرِ تعلیم تھے۔ برلن کی ایک علمی نشست میں، جہاں مختلف فلسفی جمع تھے، ایک مغربی دانشور نے مشرقی اقوام کو علمی طور پر پسماندہ کہا۔ اقبال نے بڑے سکون سے اس کے نظریے کو چیلنج کیا اور کہا: “آپ نے شاید مشرق کے دل کو نہیں دیکھا۔ وہاں کے لوگ رات کے سناٹے میں ستاروں سے باتیں کرتے ہیں اور اُن کی روحیں کائنات کے رازوں سے جڑی ہوتی ہیں۔” پھر انہوں نے اپنی فارسی نظم کا ایک حصہ سنایا، اور محفل میں ایسا سکوت چھا گیا جیسے سب کو اپنی کم علمی کا احساس ہو گیا ہو۔

ایک اور واقعہ جو اقبال کی سادہ مزاجی اور روحانی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے، وہ ان کے آخری ایام کا ہے۔ ایک دن ایک دوست نے اُن سے پوچھا کہ وہ کس چیز سے سب سے زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اقبال نے مسکرا کر جواب دیا: “جب میں کسی بچے کو مسجد کے صحن میں کھیلتا دیکھتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے میری شاعری نے کسی دل میں اُمید جگا دی ہو۔” یہ جملہ ایک شاعر کے اُس مقصد کو ظاہر کرتا ہے جو شہرت یا دولت سے کہیں بلند ہے۔

اقبال کے کلام میں ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ ہر دور کے انسان کو مخاطب کرتا ہے۔ ان کی نظم “شکوہ” اور “جواب شکوہ” صرف مذہبی جذبات کی عکاسی نہیں کرتیں، بلکہ ایک قوم کی اجتماعی نفسیات کی تصویر پیش کرتی ہیں۔ وہ سوال بھی کرتے ہیں اور جواب بھی خود ہی دیتے ہیں۔

ان کے اردو اشعار جیسے

“خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے”

صرف شاعری نہیں، بلکہ زندگی کا ایک مکمل فلسفہ ہیں۔

اقبال کی شخصیت آج بھی نوجوانوں کو متاثر کرتی ہے۔ اس بارے میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی رائے بھی ان کے اثرات کو واضح کرتی ہے۔

ایک نوجوان اسکالر، عمیر خالد، جو فلسفہ پر تحقیق کر رہے ہیں، کہتے ہیں:

“اقبال میرے لیے صرف ایک شاعر نہیں بلکہ ایک فکری استاد ہیں۔ جب میں ان کے تصور خودی کو پڑھتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی مجھے میرے اندر کا اصل انسان یاد دلا رہا ہو۔ وہ ہمیں صرف دنیا دیکھنے کا نظریہ نہیں دیتے، بلکہ خود کو پہچاننے کی جستجو سکھاتے ہیں۔”

ایک خاتون سماجی کارکن، ثنا محمود، جو نوجوانوں کی ذہنی صحت پر کام کر رہی ہیں، کہتی ہیں:

“اقبال کی شاعری میرے لیے ایک تھراپی ہے۔ جب میں مایوس ہوتی ہوں، تو ان کے اشعار مجھے حوصلہ دیتے ہیں۔ ان کا کلام مجھے بتاتا ہے کہ میں کتنی قیمتی ہوں اور میرے اندر کتنی طاقت چھپی ہے۔ وہ عورت، مرد، جوان، بوڑھے سب کے شاعر ہیں۔”

ایک بزرگ ادیب اور نقاد، پروفیسر عارف علوی، کا کہنا ہے:

“میں نے دنیا کے کئی شاعروں کا مطالعہ کیا، لیکن اقبال جیسا کوئی نہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ عظیم شاعر تھے، بلکہ اس لیے کہ وہ ایک مقصد کے ساتھ لکھتے تھے۔ ان کے اشعار محض تخیل نہیں، ایک تحریک ہیں۔ ان کی ہر نظم ایک نعرہ ہے، اور ہر شعر ایک بیداری کا پیغام۔”

اقبال نے جس طرح فارسی زبان میں اپنے خیالات کا اظہار کیا، وہ فارسی ادب کی تاریخ میں ایک روشن باب ہے۔ ان کی فارسی نظموں میں جو فکری بلندی ہے، وہ حافظ، سعدی اور رومی کے انداز کو ایک نئے رنگ میں پیش کرتی ہے۔ ان کی نظم “پس چہ باید کرد اے اقوام شرق” آج بھی مشرقی دنیا کے لئے ایک فکری چارٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔

اقبال کے کلام کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ صرف الفاظ نہیں، روح کی آواز ہے۔ وہ صرف شاعر نہیں، ایک بیدار مغز راہنما تھے جنہوں نے نہ صرف خواب دیکھا بلکہ ایک پوری نسل کو خواب دیکھنے کی ہمت دی۔ ان کا کلام آج بھی زندہ ہے، ان کے خیالات آج بھی تازہ ہیں، اور ان کی آواز آج بھی دلوں میں گونجتی ہے۔

آج جب ہم اقبال ڈے مناتے ہیں، تو ہمیں صرف اشعار پڑھنے اور تصویریں لگانے تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ ہمیں اُن کے افکار کو اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہیے۔ اگر ہم واقعی اقبال کے وارث ہیں تو ہمیں “خودی” کو بیدار کرنا ہوگا، سچائی سے جڑے رہنا ہوگا اور وہی حوصلہ اپنانا ہوگا جو انہوں نے غلامی کے اندھیروں میں دیا تھا۔

زین اختر

زین اختر

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس