تحقیقی صحافی لحاظ علی کی ایک رپورٹ نے پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (PDA) کے اصل چہرے سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ وہ ادارہ جو پشاور کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے قائم ہوا تھا، اب خود سوالیہ نشان بن چکا ہے۔
رپورٹ کے مطابق PDA میں کل ملازمین کی تعداد 3,132 ہے، مگر سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ ان میں سے 2,060 ملازمین درجہ چہارم کے ہیں یعنی ہر تین میں سے دو ملازم صرف چپڑاسی، مالی یا نائب قاصد ہیں۔ جب کہ افسران کی کل تعداد صرف 118 ہے۔
اس سب کا مطلب یہ ہوا کہ ہر افسر کے لیے اوسطاً 26 ماتحت ملازمین تعینات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ افسران آخر کرتے کیا ہیں؟
اس کے علاوہ وال مینوں کی تعداد پانچ، جو صرف پانی کے نلکے کھولنے اور بند کرنے پر مامور ہیں۔ مگر مالی؟ ان کی تعداد بھی حیران کن طور پر 1,100 سے زائد ہے۔ مسجد کے لیے چار آئمہ، 460 ہیلپرز، 150 سے زائد چوکیدار اور نائب قاصد 700 سے بھی زیادہ۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ ان درجہ چہارم ملازمین میں بیشتر کا تعلق افسروں کے رشتہ داروں، جاننے والوں یا سیاسی سفارش سے ہے۔ جبکہ دو اعلیٰ افسران نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے جو کہ صورتحال کی سنگینی کو مزید گہرا کر دیتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عوام کا پیسہ واقعی عوامی خدمت میں استعمال ہو رہا ہے یا یہ صرف چند ہاتھوں میں کھیل بن چکا ہے؟