گزشتہ روز مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے فالس فلیگ حملے کے بعد بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔
بھارت کی جانب سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کے علاوہ سارک کے تحت پاکستانیوں کو دیے گئے ویزے منسوخ کرنے کا بھی اعلان کرتے ہوئے بھارت میں موجود پاکستانیوں کو 48 گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کا حکم بھی جاری کر دیا ہے۔
بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اقدام گزشتہ روز مقبوضہ جموں و کشمیر کے سیاحتی علاقے پہلگام میں فائرنگ کے واقعے میں 28 افراد کی ہلاکت کے بعد سامنے آیا۔ ایسے میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو ختم کرسکتا ہے یا نہیں؟
سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ عالمی معاہدہ ہے جسے بھارت یک طرفہ طور پر ختم نہیں کر سکتا۔ 1960 کا سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا تھا۔ معاہدے میں کوئی تبدیلی دونوں ممالک کی رضامندی سے ہی ہو سکتی ہے۔ اگر ایک ملک بھی تبدیلی کی تردید کر دے تو وہ نہیں کی جاسکتی۔
خیال رہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی بینک کی ثالثی میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے کے تحت 3 دریا سندھ، چناب اور جہلم پاکستان کے حصے میں آئے تھے جبکہ راوی، ستلج اور بیاس بھارت کو سونپے گئے تھے۔
بھارت کی طرف سے ماضی میں متعدد بار اس معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور پاکستانی دریاؤں پر پن بجلی منصوبے تعمیر کرکے پاکستان آنے والے پانی کو متاثر کیا گیا ہے۔
گزشتہ تین سال سے بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث پاکستان اور بھارت کے انڈس واٹر کمشنرز کا اجلاس بھی نہیں ہو سکا، دونوں ملکوں کے درمیان انڈس واٹر کمشنرز کا آخری اجلاس 30 اور 31 مئی 2022 کو نئی دہلی میں ہوا تھا۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت سال میں دونوں ملکوں کے کمشنرز کا اجلاس ایک بار ہو نا ضروری ہے۔ پاکستان کے انڈس واٹر کمشنرکی طرف سے بھارتی ہم منصب کو اجلاس بلانے کے لیے متعدد بار خط لکھا گیا لیکن کوئی مناسب جواب نہیں ملا۔
سینئر صحافی حامد میر نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری کردہ اپنے بیان میں لکھا کہ ” سندھ طاس معاہدے 1960 کی شرائط مستقل اور پابند فطرت ہیں۔ معاہدے کے آرٹیکل 12(4) کے مطابق کسی بھی فریق کی طرف سے معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری نہیں ہو سکتی۔ معاہدے کی کسی بھی خلاف ورزی سے قانونی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں اس لیے IWT پر ردعمل اس وقت کے لیے مذکورہ شق کی تکرار تک محدود ہو سکتا ہے۔”
The terms of Indus Water Trearty 1960 are perpetual and binding in nature and there can be no unilateral withdrawl from the treaty by any party as set out in Article 12(4) of the treaty. Any breach of treaty raises legal liabilities therefore response on IWT may be restricted to…
— Hamid Mir حامد میر (@HamidMirPAK) April 23, 2025
انہوں نے مزید لکھا کہ “معاہدے فریقین کے درمیان قانونی طور پر پابند ذمہ داریاں ہیں۔ بظاہر بھارتی اعلان گھریلو استعمال کے لیے ہے اس لیے معاہدے کے آرٹیکل 8 کے مطابق مستقل انڈس کمیشن کے اجلاس کے ذریعے بھارت کے موقف کو پاکستان کو قانونی طور پر جانچنا چاہیے۔”
حامد میر نے ایکس پر جاری کردہ اپنے ایک اور بیان میں لکھا کہ “بھارتی حکومت کی طرف سے پہل گام حملے کے بعد سندھ طاس معاہدہ معطل کرنا دراصل اپنی انٹیلی جینس کی ناکامی چھپانے کی کوشش ہے پہل گام میں پہلے بھی اس قسم کے حملے ہوتے رہے بھارتی سکیورٹی فورسز اس خطرناک علاقے میں سیاحوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہیں جس کا ذمہ دار پاکستان ہرگز نہیں ہے
بھارتی حکومت کی طرف سے پہل گام حملے کے بعد سندھ طاس معاہدہ معطل کرنا دراصل اپنی انٹیلی جینس کی ناکامی چھپانے کی کوشش ہے پہل گام میں پہلے بھی اس قسم کے حملے ہوتے رہے بھارتی سکیورٹی فورسز اس خطرناک علاقے میں سیاحوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہیں جس کا ذمہ دار پاکستان ہرگز نہیں ہے pic.twitter.com/V9rGC6vQl7
— Hamid Mir حامد میر (@HamidMirPAK) April 23, 2025