Follw Us on:

پہلگام واقعہ: انڈیا کی سفارتی سرگرمیاں تیز، کیا پاکستان پر حملے کی تیاری ہورہی ہے؟

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کر دیا جائے گا اور سخت سزا دی جائے گی۔ (فوٹو: گوگل)

مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں 22 اپریل کو پیش آنے والے ہولناک دہشت گرد حملے کے بعد انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے دنیا کے درجنوں رہنماؤں سے ٹیلیفون پر گفتگو کی، نئی دہلی میں 100 سے زائد ممالک کے سفارتی نمائندے انڈین وزارت خارجہ میں خصوصی بریفنگز کے لیے طلب کیے گئے۔

عالمی خبررساں ادارے نیویارک ٹائمز نےسفارتی ذرائع کو حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ انڈین حکومت کی بریفنگز میں پاکستان کا نام لیے بغیر اس پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کے الزامات دہرائے جا رہے ہیں۔ نریندر مودی نے اپنی حالیہ تقریر میں کہا کہ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کر دیا جائے گا اور سخت سزا دی جائے گی۔

انڈین حکام کے مطابق دونوں ممالک کی افواج کے درمیان لائن آف کنٹرول پر پچھلے چند دنوں میں وقفے وقفے سے فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا ہے۔ ایک انڈین اہلکار نے بتایا کہ گزشتہ تین راتوں میں مسلسل فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جب کہ دوسرے اہلکار نے کہا کہ یہ تبادلہ دو بار ہو چکا ہے۔

 مقبوضہ کشمیر میں انڈین سیکیورٹی فورسز نے بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے اور سیکڑوں افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جب کہ حملے کے ذمہ داروں کی تلاش جاری ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں انڈین سیکیورٹی فورسز نے بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے۔ (فوٹو: گیٹی امیجز)

انڈیا نے پاکستان کے خلاف اقتصادی دباؤ بڑھانے کے لیے دریاؤں کے پانی کے بہاؤ کو روکنے کا اعلان بھی کیا ہے، جس پر پاکستان کے زرعی نظام کا بڑا انحصار ہے۔ ساتھ ہی پاکستانی سفارتی مشن کے کچھ ارکان اور انڈیا میں موجود پاکستانی شہریوں کو فوری طور پر ملک چھوڑنے کے احکامات بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔

دوسری جانب پاکستانی حکومت نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا حملے سے کوئی تعلق نہیں۔ پاکستان نے جواب میں انڈیا کے ساتھ متعدد دو طرفہ معاہدے معطل کرنے کا اعلان کیا ہے، جن میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی معاہدہ بھی شامل ہے۔

مزید پڑھیں: پہلگام فالس فلیگ: انڈین وزارتِ خارجہ نے تمام پاکستانی شہریوں کو 48 گھنٹوں کے اندر انڈیا چھوڑنے کا حکم دے دیا

حملے کے بعد سےانڈیا میں مسلمانوں خاص طور پر کشمیری طلبہ کے خلاف نفرت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں کشمیری طلبہ کو ہراسانی اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس کے باعث کئی طلبہ اپنے گھروں کو واپس جانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

واضح رہے کہ انڈیانے تاحال کسی مخصوص گروہ کو حملے کا ذمے دار نہیں ٹھہرایا اور نہ ہی پاکستان کے ملوث ہونے کے کوئی ٹھوس شواہد عوام کے سامنے پیش کیے ہیں۔ انڈین حکام کا کہنا ہے کہ تحقیقات جاری ہیں اور انہوں نے سفارتی بریفنگز میں ماضی میں پاکستان کی جانب سے دہشت گرد گروہوں کی حمایت کے حوالوں کے ساتھ ساتھ تکنیکی انٹیلیجنس، بشمول چہرے کی شناخت کے کچھ شواہد کا ذکر کیا ہے۔

کشمیری طلبہ کے خلاف نفرت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ (فوٹو: گیٹی امیجز)

بین الاقوامی تجزیہ کاروں کے مطابق انڈیا یا تو مزید شواہد اکٹھے کرنے کے عمل میں مصروف ہے یا پھر موجودہ عالمی حالات میں اپنے اقدامات کو جواز دینے کی ضرورت محسوس نہیں کر رہا۔ دنیا کی بڑی طاقتیں جیسے امریکہ، ایران اور سعودی عرب نے دونوں ممالک پر تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ ایران نے ثالثی کی پیشکش بھی کی ہے، جب کہ اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

امریکہ اور دیگر بڑی طاقتیں دیگر عالمی بحرانوں میں الجھی ہوئی ہیں، جس کے باعث انڈیا کو کسی بڑے بین الاقوامی دباؤ کا سامنا نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پہلگام حملہ: ایک واقعہ دو بیانیے، کیا جنوبی ایشیا کا امن پھر سے خطرے میں ہے؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈیا کی دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کی بھرپور حمایت کی ہے، تاہم جنوبی ایشیا ان کی خارجہ پالیسی میں زیادہ ترجیح نہیں رکھتا، جیسا کہ تین ماہ گزرنے کے باوجود انڈیا میں امریکی سفیر کی عدم تعیناتی سے ظاہر ہوتا ہے۔

نیویارک ٹائمز کو تجزیہ کار ڈینیئل مارکی نے بتایا کہ  موجودہ امریکی رویہ 2019 میں پلوامہ حملے کے بعد کی صورتحال سے مماثل ہے، جب انڈین فضائی حملے کے بعد  امریکہ نے انڈیا پر تحمل کا دباؤ بڑھایا تھا۔ اس وقت انڈین طیارہ مار گرائے جانے اور پائلٹ کی گرفتاری کے بعد پاکستان نے موثر جواب دیا تھا۔

ایک غیر معروف گروپ “ریزیسٹنس فرنٹ” نے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا۔ (فوٹو: گوگل)

تجزیہ کاروں کے بقول اب کی بار  انڈیا”کچھ شاندار” کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ پاکستانی حکومت نے بھی انڈیا کی کسی بھی کارروائی کا بھرپور جواب دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

موجودہ حملے میں ذمہ داری کے حوالے سے صورتحال مبہم ہے۔ ایک غیر معروف گروپ “ریزیسٹنس فرنٹ” نے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جسےانڈین حکام لشکرِ طیبہ سے منسلک قرار دے رہے ہیں۔

سفارتی برادری میں یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا ماضی کے ریکارڈ کی بنیاد پر ایک جوہری ہتھیاروں سے لیس ہمسائے کے ساتھ جنگ چھیڑ دینا دانشمندی ہوگی؟

لازمی پڑھیں: پہلگام فالس فلیگ: انڈین میڈیا کا ایک اور جھوٹ بے نقاب، مردہ قرار دیا گیا جوڑا زندہ نکلا

انڈیا کے سابق قومی سلامتی مشیر شیو شنکر مینن  نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ مودی حکومت کے پاس عسکری جواب دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں کیونکہ 2016 اور 2019 میں بھی ایسے حملوں کے بعد فوجی کارروائی کی جا چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک “منظم دشمنی” کی حالت میں خود کو محفوظ سمجھتے ہیں اور کشیدگی بڑے پیمانے پر پھیلنے کا امکان کم ہے۔

یاد رہے کہ دی ریزیسٹنس فرنٹ نے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد اعلان کیا ہے کہ ان کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہیک کیا گیا تھا اور یہ حملہ انہوں نے نہیں کیا۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس