میں اور میرے شوہر پانی پوری کھا رہے تھے کہ اچانک فوجی وردی میں ملبوس ایک آدمی آیا اور میرے شوہر کو کہنے لگا شاید تم مسلمان نہیں ہو اور ہندو ہونے کی بنا پر گولی ماردی۔ یہ کہنا تھا ایک سیاح لڑکی کا جو اپنے شوہر کے ساتھ چھٹیاں منانے کشمیر میں آئی ہوئی تھی۔
ایسے میں سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا پہلگام واقعہ ایک دہشتگردانہ حملہ تھا یا پھر ایک سوچی سمجھی سازش تھی؟ کیا اس کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ تھا یا پھر مودی سرکار کی ایک سوچی سمجھی سازش تھی؟ دنیا کی سب سے بڑی جیل کہلانے والی مقبوضہ وادیِ کشمیر میں 7 لاکھ بھارتی فوجی اہلکاروں کے ہوتے ہوئے آخر یہ حملہ کیسے ہو گیا؟
میڈیا رپورٹ کے مطابق رواں ماہ 22 اپریل کو بھارتی شہری کشمیر کے مشہور سیاحتی مقام پہلگام کے قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ اچانک فوجی وردیوں میں ملبوس چند مشتعل افراد نے انہیں گھیر لیا۔ ہندو سیاحوں کو شناخت کے بعد قتل کر دیا گیا۔ اس افسوسناک واقع میں کم از کم 26 افراد ہلاک جبکہ 20 سے زائد زخمی ہوئے۔
ابتدائی طور پر حملے کی ذمہ داری “دی ریزسٹنس فرنٹ” نے قبول کی لیکن بعد ازاں انہوں نے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہیک ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے حملے کی ذمہ داری سے انکار کر دیا۔
ایسے میں ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ ایک گھنٹے تک جاری رہنے والے اس حملے کے محض 20 منٹ بعد پاکستان کے خلاف ایف آئی آر درج کر دی گئی لیکن حملے کے متاثرین تک کوئی امداد نہیں پہنچی۔
حملے کے بعد انڈین حکومت نے پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ 3 میں سے 2 حملہ آوروں کا تعلق پاکستانی سے تھا۔ دوسری جانب پاکستان نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا جس سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ مودی سرکاری کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔
ایسے میں عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کشمیر میں ہونے والے دہشتگردانہ حملے کا سندھ طاس معاہدے سے کیا تعلق ہے؟ پاکستان میں تو آئے روز ایسے حملے ہوتے رہتے ہیں جن میں انڈیا کے ملوث ہونے کے ثبوت میں ملتے ہیں لیکن اس کے باوجود کیا پاکستان نے انڈیا کے ساتھ کیا ہوا کوئی بھی معاہدہ معطل کیا؟
اب بات کرتے ہیں سندھ طاس معاہدے کی کہ آخر یہ معاہدہ ہے کیا اور کیوں انڈیا حیلے بہانے کر کے اس کو معطل کرنا چاہتا ہے؟
تو ناظریں سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں 1960 میں طے پایا۔ انڈیا کی جانب سے اس وقت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو جبکہ پاکستان کی جانب سے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان کے درمیان کراچی میں طے پایا تھا۔ معاہدے کے تحت 3 دریا راوی، بیاس اور ستلج انڈیا انڈیا کے حصے میں آئے جبکہ جموں کشمیر سے نکلنے والے 3 دریا سندھ، چناب اور جہلم پاکستان کے حصے میں آئے۔ اس معاہدے کے تحت ہر سال دونوں ممالک کے درمیان ڈیٹا شیئرنگ کی غرض سے کمشنز کی سطح پر اجلاس بھی ہونا طے پایا تھا جو انڈین حکومت کی ہٹ دھرمی کے باعث گزشتہ 3 برسوں سے ہو رہا۔
اب واپس چلتے ہیں پہلگام واقع کی جانب جس کو جواز بنا کر انڈیا کی جانب سے معاہدہ معطل کرنے کی ایک بار پھر کوشش کی گئی ہے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رکھنا بھی ضروری ہے کہ یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ انڈیا کی جانب سے اس معاہدے کو معطل کرنے کی کوشش کی ہو۔ اس سے پہلے پلوامہ حملے کو جواز بنا کر بھی انڈیا سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کی ناکام کوشش کر چکا ہے۔
پاکستان کا مؤقف رہا ہے کہ انڈیا مقبوضہ کشمیر میں سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اس کے منصوبے مستقبل میں پاکستان کو اس کے حصے کے پانی سے محروم کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب انڈیا کا مؤقف ہے کہ وہ پانی ذخیرہ نہیں کر رہے صرف بہتے پانی سے بجلی پیدا کر رہے ہیں جو کہ معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہے۔
انڈیا کی جانب سے بار بار سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کی کوششیں جاری ہیں ایسے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا انڈیا یک طرفہ طور پر اس معاہدے پر عملدرآمد روک سکتا ہے؟
ماہر بین الاقوامی قوانین احمر بلال صوفی نے بی بی سی کو اس بارے بتایا کہ انڈیا کو یکطرفہ اس معاہدے کو منسوخ یا معطل کرنے کا حق ہی حاصل نہیں ہے۔ اس معاہدے میں ایسی کوئی شق ہی نہیں ہے کہ اسے معطل کیا جا سکے۔ تاہم اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک باہمی رضامندی سے اس معاہدے میں تبدیلی کر سکتے ہیں۔
احمر بلال کے مطابق پاکستان اس اقدام کو اقوام متحدہ میں چیلنج کر سکتا ہے اور انڈیا کے خلاف اسی نوعیت کے اقدامات بھی اٹھا سکتا ہے۔
اس سارے معاملے بعد اب یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ کیا انڈیا کا سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان پاکستان کے لیے کسی قسم کی مشکلات پیدا کر سکتا ہے؟
سابق ایڈیشنل انڈس واٹر کمشنر شیراز میمن نے اس بارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قلیل مدتی لحاظ سے اس کا پاکستان پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔ انڈیا پاکستان کے حصے کا پانی روک نہیں سکتا کیونکہ اس کے پاس فی الوقت کوئی ایسا ذخیرہ یا وسائل نہیں جہاں وہ ان دریاؤں کے پانی کو جمع کر سکے۔ لیکن اگر یہ تعطل جاری رہتا ہے تو طویل مدت میں اس کا نقصان پاکستان کو اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ انڈیا جو ڈیمز، بیراج یا پانی ذخیرہ کرنے کے انفراسٹرکچر بنا رہا ہے وہ پاکستان کو مطلع کیے بغیر ان کا ڈیزائن تبدیل کر سکتا ہے۔
سابق وفاقی سیکریٹری واٹر اینڈ پاور محمد یونس ڈھاگا کا کہنا ہے کہ “یہ ایک عالمی معاہدہ ہے جس کے ثالت عالمی ادارے ہیں اور اس کی معطلی انڈیا کے لیے ممکن نہیں۔ یہ محض ایک سیاسی بیان سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔”
تاہم شیراز میمن کے مطابق “ایسا کرنا انڈیا کے لیے آسان نہیں ہو گا کیونکہ عالمی بینک اس معاہدے کا ثالث ہے۔ پاکستان اس مسئلے کو بین الاقوامی عدالت میں بھی لے جا سکتا ہے۔”
ایسے میں یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ اگر سندھ طاس معاہدہ معطل ہو جاتا ہے تو اس کے پاکستان پر اثرات کیسے ہو سکتے ہیں؟
تو ناظریں اگر سندھ طاس معاہدہ معطل ہو جاتا ہے تو یہ پاکستان کو زرعی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ پاکستان بھر میں آبپاشی کے نظام کا زیادہ تر انحصار دریائے سندھ، جہلم اور چناب پر ہی ہے۔ اس کے علاوہ پینے کے پانی کا بحران بھی پیدا ہو سکتا ہے اور بجلی کی پیداوار بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ دریاؤں میں پانی کا بہاؤ غیر متوازن ہونے سے سیلابی صورتحال یا پھر خشک سالی کے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔
پانی جیسا اہم اور بنیادی وسیلہ اگر سیاسی دباؤ کے لیے استعمال ہوا تو دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا جس سے جنوبی ایشیا کا امن خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
ماہرِ آبی امور ڈاکٹر بشیر لاکھانی نے کہنا ہے کہ “پاکستان کو اپنا پانی بچانے کے لیے تمام تر قوت کا استعمال کرنا چاہیے۔ پاکستان اس بحران کا حل کئی طریقوں سے نکال سکتا ہے۔ سب سے پہلے پاکستان کو فوری طور پر بین الاقوامی عدالت انصاف یا عالمی بینک سے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ سندھ طاس معاہدے کا ضامن بھی عالمی بینک ہے۔ دوسرے نمبر پر پاکستان کو اپنی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بڑھانی چاہیے۔ نئے ڈیمز اور ذخائر تعمیر کر کے پاکستان اپنی واٹر سیکیورٹی بہتر بنا سکتا ہے۔ تیسرے نمبر پر پاکستان کو اندرون ملک پانی کے بہتر اور محتاط استعمال کے لیے قومی پالیسی تشکیل دینی چاہیے۔ آبپاشی کے جدید طریقوں کو فروغ دے کر ضیاع کو روکنا چاہیے اور ری سائیکلنگ سسٹمز متعارف کرانا وقت کی ضرورت ہے۔