مئی 2023 کو ملک بھر میں اٹھنے والے ہنگاموں کے بعد پیدا ہونے والا سب سے بڑا آئینی سوال اب اپنے انجام کے قریب پہنچ چکا ہے۔ سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے، جو اسی ہفتے سنائے جانے کا امکان ہے۔
عدالت کا کہنا ہے کہ شارٹ آرڈر اسی ہفتے جاری کریں گے۔
یہ وہ لمحہ ہے جس کا شدت سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ کیا سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں آئینی طور پر جائز ہے؟ کیا ریاست نے اپنے ہی شہریوں کے حقوق پامال کیے؟ یا پھر واقعی 9 مئی کے حملے قومی سلامتی کے لیے ایسا خطرہ تھے کہ فوجی عدالتوں کا سہارا لینا ناگزیر تھا؟
انہی سوالات نے سپریم کورٹ کی راہداریوں کو گزشتہ کئی دنوں سے سیاسی و قانونی بحث کا مرکز بنائے رکھا۔
بینچ کی سربراہی جسٹس امین الدین خان کر رہے تھے اور ان کے ہمراہ جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن جیسے ججز نے قانونی نکات پر سوالات اٹھائے۔
سماعت کے دوران عدالت میں جمہوریت، آئین، انسانی حقوق اور عسکری اختیارات کے درمیان توازن پر بحث ایک سنجیدہ موڑ اختیار کر گئی۔
یہ بھی پڑھیں: پہلگام واقعے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے انڈین دعوے پر مغرب تاحال قائل نہیں، امریکی تجزیہ کار
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے 9 مئی کے دن کی مکمل تصویر پیش کی۔
ان کے مطابق دوپہر تین بجے سے شام تک پورے ملک میں 39 مقامات پر منظم حملے ہوئے جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہاؤس لاہور، ایئر بیس میانوالی اور آئی ایس آئی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔
ان کا دعویٰ تھا کہ یہ کارروائیاں خودبخود نہیں ہوئیں، بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ “اگر اس دن لاہور پر دشمن حملہ کرتا، تو ہم دفاع کے قابل نہ ہوتے۔”
مگر عدالت نے یک طرفہ بیانیہ قبول کرنے سے گریز کیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ “سوال یہ نہیں کہ جرم ہوا یا نہیں، سوال یہ ہے کہ اپیل کا قانونی جواز کیا ہے؟”
عدالت نے اٹارنی جنرل سے کئی اہم سوالات کیے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے سخت انداز میں کہا کہ “آپ غلط راستے پر جا رہے ہیں۔ ٹرائل پر اثر نہ پڑے اس لیے ہم نے بات میرٹ پر کہ ہے 9 مئی پر نہیں۔”
انہوں نے پوچھا کیا کور کمانڈر لاہور بطور گواہ پیش ہوئے؟
جسٹس مسرت ہلالی نے آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں عدم ترمیم پر سوال اٹھایا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے نشاندہی کی کہ اگر سپریم کورٹ کوئی مشورہ دے تو پارلیمنٹ کو قانون سازی پر مجبور کیا جا سکتا ہے جیسا کہ سابق آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع والے کیس میں ہوا تھا۔
دلائل کے اختتام پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا اور عندیہ دیا کہ رواں ہفتے ہی شارٹ آرڈر جاری کیا جائے گا۔
یہ محض ایک عدالتی فیصلہ نہیں، بلکہ آئینی تاریخ کا وہ موڑ ہے جس پر ملک کا مستقبل بدل سکتا ہے۔
86 افراد فوجی عدالتوں سے سزائیں پا چکے ہیں جبکہ باقی افراد کو اپیل کے لیے نرمی دی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا انہیں آئینی حق ملے گا؟