برطانیہ کے وزیر اعظم سر کیر سٹارمر نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ملک کے امیگریشن کے ٹوٹے ہوئے نظام کو درست کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایسا نیا نظام متعارف کرانا چاہتے ہیں جو منصفانہ، منتخب اور مکمل کنٹرول میں ہو۔
اس نظام میں کئی بڑی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔ سب سے اہم تجویز یہ ہے کہ برطانیہ میں مستقل سکونت (سیٹلمنٹ) حاصل کرنے کے لیے تارکین وطن کو اب پانچ سال کے بجائے دس سال تک انتظار کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ تمام ویزا درخواست دہندگان اور ان کے ساتھ آنے والے بالغ افراد کے لیے انگلش زبان کا معیار مزید سخت کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا امیگریشن کے ’ٹوٹے ہوئے نظام‘ کو درست کرنے کا فیصلہ، کیا اصلاحات ہوں گی؟
سر کیر نے موجودہ نظام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کئی صنعتیں برطانوی نوجوانوں کی تربیت اور ان میں مہارت پیدا کرنے کے بجائے بیرونِ ملک سے سستی مزدوری لانے کو ترجیح دیتی ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر انجینئرنگ کے شعبے کی مثال دی، جہاں ویزا کی منظوریوں میں اضافہ ہوا ہے، لیکن مقامی سطح پر تربیتی مواقع، یعنی اپرنٹس شپس میں کمی آئی ہے۔
سر کیر سٹارمر کا کہنا ہے کہ ایسا امیگریشن نظام ہونا چاہیے جو برطانوی نوجوانوں کو نظر انداز نہ کرے بلکہ ان کی تربیت اور مستقبل کی راہ ہموار کرے۔ ان کے مطابق موجودہ نظام نے مقامی نوجوانوں کو وہ مواقع نہیں دیے جن کے وہ حقدار تھے۔
دوسری جانب شیڈو ہوم سیکریٹری کرس فلپ نے لیبر پارٹی کی امیگریشن پالیسی کو ایک “مذاق” قرار دیا ہے اور حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں امیگریشن پر باقاعدہ کیپ (حد بندی) نافذ کرے۔
یہ تمام بیانات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب برطانیہ امیگریشن سے متعلق اپنی “وائٹ پیپر” رپورٹ جاری کرنے والا ہے، جس میں آنے والی پالیسیوں کی تفصیل دی جائے گی۔ یہ ایک اہم سیاسی اور سماجی موضوع ہے جو نہ صرف تارکین وطن بلکہ برطانوی عوام کی روزگار، تربیت اور معیشت سے بھی براہ راست جڑا ہوا ہے۔