Follw Us on:

بڑھتی گرمی کے بعد پنجاب و خیبرپختونخوا میں الرٹ جاری، خود کو کیسے بچائیں؟

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Summar.

پاکستان کے صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 20 سے 24 مئی کے دوران شدید گرمی اور ہیٹ ویو کے خدشے کے پیش نظر صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز نے الرٹ جاری کر دیا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ ان دنوں درجہ حرارت معمول سے پانچ سے سات ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ہو سکتا ہے، جس کے باعث شہریوں کو شدید گرمی، تیز ہواؤں اور آندھی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

پنجاب کے تعلیمی اداروں میں گرمیوں کی چھٹیوں کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ وزیرِ تعلیم کے مطابق صوبے بھر کے اسکولوں میں 28 مئی سے چھٹیاں شروع ہوں گی۔

ساتھ ہی سکولوں کے اوقاتِ کار میں بھی تبدیلی کر دی گئی ہے۔ اب اسکول صبح 7:30 بجے سے 11:30 بجے تک کھلے رہیں گے، تاکہ شدید گرمی سے بچوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔

Schools
اب اسکول صبح 7:30 بجے سے 11:30 بجے تک کھلے رہیں گے۔ (فوٹو: وی نیوز)

یہ فیصلہ بچوں کی صحت و سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے، اور تمام تعلیمی اداروں کو اس پر عملدرآمد کی ہدایت جاری کر دی گئی ہے۔

پنجاب میں پراوِنشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے بتایا ہے کہ بڑے شہروں اور میدانی علاقوں میں گرمی کی شدت غیر معمولی طور پر بڑھنے کا امکان ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کمشنر پنجاب نبیل جاوید نے تمام کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو فوری اقدامات کرنے کی ہدایت دی ہے۔ انہوں نے متعلقہ اداروں کو الرٹ رہنے اور باہمی رابطے کو یقینی بنانے کا کہا ہے۔

ڈی جی پی ڈی ایم اے عرفان علی کاٹھیا کے مطابق محکمہ تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ، بلدیاتی حکومت اور ریسکیو سمیت تمام محکموں کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں تاکہ کسی بھی ممکنہ ہنگامی صورتحال کا بروقت مقابلہ کیا جا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام کو غیر ضروری نقل و حرکت سے گریز کرنے، ہلکے رنگ کے کپڑے پہننے، سر ڈھانپنے اور زیادہ پانی پینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ انہوں نے بچوں اور بزرگوں کا خاص خیال رکھنے اور دوپہر کے اوقات میں جسمانی مشقت سے پرہیز کرنے کا مشورہ بھی دیا۔

Summar 2
خیبرپختونخوا میں تمام ضلعی انتظامیہ کو الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔ (فوٹو: ایکس)

عوامی مقامات پر صاف پانی کی دستیابی، اسپتالوں اور موبائل ہیلتھ یونٹس میں ہیٹ سٹروک کے علاج کی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کی بھی ہدایت دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ خیبرپختونخوا میں بھی جنوبی اور وسطی اضلاع میں گرمی کی شدت میں اضافہ متوقع ہے، جہاں دن کے اوقات میں درجہ حرارت معمول سے کئی درجے زیادہ ہو سکتا ہے۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق گرمی کے باعث گرد و غبار، تیز ہوائیں، خشک موسم، برف پگھلنے کی رفتار میں اضافہ اور آبی ذخائر پر دباؤ بڑھنے کا خدشہ ہے۔

خیبرپختونخوا میں بھی تمام ضلعی انتظامیہ کو الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔ شہریوں کو دھوپ میں نکلنے سے اجتناب، پانی کا زیادہ استعمال اور بچوں و بزرگوں کو صبح 10 سے شام 5 بجے کے درمیان دھوپ سے بچانے کی تاکید کی گئی ہے۔ کسانوں کو فصلوں کی کٹائی کے دوران احتیاط برتنے اور مویشیوں کا خاص خیال رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ ساتھ ہی ہیلتھ اور میڈیکل سروسز، پیرا میڈیکس اور ریسکیو اداروں کو چوکنا رہنے اور ہیٹ سٹروک سینٹرز کو فعال رکھنے کی ہدایت جاری کی گئی ہے۔

شہریوں کو سفر سے قبل اپنی گاڑی کے انجن میں پانی اور ٹائروں کا پریشر چیک کرنے کا بھی مشورہ دیا گیا ہے تاکہ گرمی کے اثرات سے ممکنہ حد تک بچا جا سکے۔

Canals
پی ڈی ایم اے کے مطابق گرمی کے باعث گرد و غبار، تیز ہوائیں، خشک موسم، برف پگھلنے کی رفتار میں اضافہ اور آبی ذخائر پر دباؤ بڑھنے کا خدشہ ہے۔ (فوٹو: ڈان نیوز)

سنیہا سچر، جنہوں نے اپنی آدھی زندگی دہلی میں گزاری اور اب کیلیفورنیا میں رہتی ہیں، گرمی برداشت کر سکتی ہیں۔ مگر ان کا کہنا ہے کہ دہلی اب پہلے سے کہیں زیادہ گرم محسوس ہوتا ہے۔

وہ کلین کولنگ کولیبریٹیو کے ساتھ کام کرتی ہیں، جو کہ ایسے طریقے تلاش کرنے میں لگی ہوئی ہیں جو انسانوں اور ماحول دونوں کے لیے بہتر ٹھنڈک فراہم کر سکیں۔ ان کے مطابق بڑھتی ہوئی گرمی خاص طور پر ان لوگوں کی روزی پر اثر ڈال رہی ہے جو باہر کام کرتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ محض 20 منٹ کا وقفہ، جیسے کہ کسی سائے دار اور ہوادار جگہ پر، بڑی تبدیلی لا سکتا ہے۔

ایسے سادہ طریقوں کے باوجود، طویل المدتی حل کے لیے جدید ٹیکنالوجی ناگزیر ہوتی جا رہی ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ کولنگ مارکیٹ، جس کی مالیت اس وقت 235 ارب ڈالر سالانہ ہے، 2030 تک دوگنی ہو سکتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ کولنگ آلات، خاص طور پر ایئر کنڈیشنرز، ایسے فریزرز استعمال کرتے ہیں جو ماحولیاتی لحاظ سے خطرناک ہوتے ہیں، جیسے کہ ہائیڈرو فلورو کاربنز جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔

Sneha
سنیہا سچر کا کہنا ہے کہ دہلی اب پہلے سے کہیں زیادہ گرم محسوس ہوتا ہے۔ (فوٹو: بی بی سی)

ابھی یہ تمام ٹیکنالوجیز اپنی ابتدائی مراحل میں ہیں، اور ان کی کارکردگی روایتی نظام سے کم ہے، مگر ماہرین کا خیال ہے کہ وقت کے ساتھ ان میں بہتری آئے گی۔ چیلنج یہ ہے کہ یہ ٹیکنالوجی صرف امیر ممالک تک محدود نہ رہے بلکہ وہاں بھی پہنچے جہاں گرمی سب سے زیادہ اثر ڈال رہی ہے، اور لوگ کولنگ سسٹمز کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

محترمہ راسموسن کہتی ہیں کہ اصل سوال یہی ہے: کیا یہ ٹیکنالوجیز اتنی سستی ہو سکیں گی کہ ان لوگوں کے لیے قابلِ رسائی ہو جائیں جنہیں ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے؟

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس