مقامی حکام کے مطابق غزہ میں بے گھر افراد کو پناہ دینے والے ایک سکول پر اسرائیلی حملے میں کم سے کم 20 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسرائیل نے مئی کے اوائل میں غزہ میں فوجی کارروائیوں میں تیزی لاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ حماس کی فوجی اور انتظامی صلاحیتوں کو ختم کرنا چاہتا ہے اور وہاں رہ جانے والے باقی یرغمالیوں کو واپس لانا چاہتا ہے۔
پیر کو طبی عملے نے بتایا ہے کہ غزہ شہر کے الدرج کے علاقے میں واقع سکول پر حملے میں درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصاویر کے مطابق بعض لاشیں بری طرح جھلس چکی ہیں تاہم روئٹرز ان تصاویر کی فوری طور پر تصدیق نہیں کر سکا۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے فوری طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔
غزہ میں اسرائیلی فوج کے ایک اور حملے میں کم از کم 30 فلسطینی جاں بحق ہو گئے۔ ان ہلاکتوں میں ریسکیو سروس کے ایک سینئر اہلکار اشرف ابو نار اور ان کی اہلیہ کے علاوہ ایک مقامی صحافی بھی شامل ہیں۔ طبی ذرائع کے مطابق یہ اموات خان یونس، جبالیہ اور نصیرات جیسے علاقوں میں علیحدہ علیحدہ فضائی حملوں کے باعث ہوئیں۔
غزہ کے میڈیا دفتر کے مطابق جاں بحق صحافی کی ہلاکت کے بعد اکتوبر 2023 سے اب تک ہلاک ہونے والے فلسطینی صحافیوں کی تعداد 220 ہو چکی ہے۔ ان حملوں میں نہ صرف عام شہری بلکہ امدادی اداروں کے اہلکار شہید ہوئے۔ عالمی ریڈ کراس کمیٹی کے مطابق خان یونس میں ایک گھر پر حملے میں دو ملازمین، ابراہیم عید اور احمد ابو ہلال بھی شہید گئے۔
یہ بھی پڑھیں: شام پر امریکی پابندیوں کا خاتمہ: فلسطینی مزاحمت کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا یا مشرقِ وسطیٰ میں نئی صف بندی کا پیش خیمہ؟
اسرائیلی فوج کے مطابق ان کے چیف آف اسٹاف ایال ضمیر نے خان یونس میں تعینات فوجیوں سے ملاقات کرتے ہوئے کہا کہ جنگ ہمیشہ جاری نہیں رہ سکتی، اور حماس اب اپنے بیشتر بنیادی ڈھانچے سے محروم ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حماس کو ختم کرنے، یرغمالیوں کو واپس لانے، اور غزہ میں اس کی حکمرانی کے خاتمے کے لیے تمام ممکنہ ذرائع استعمال کیے جائیں گے۔ تاہم، اسرائیلی بیان میں اتوار کے حملوں کی تفصیل نہیں دی گئی۔

اس دوران غزہ کے میڈیا دفتر نے دعویٰ کیا کہ اسرائیلی فورسز غزہ کی پٹی کے 77 فیصد رقبے پر قابض ہیں۔ جہاں وہ یا تو براہ راست فوجی موجودگی سے یا انخلاء کے احکامات اور بمباری کے ذریعے، جس نے بڑی تعداد میں شہریوں کو اپنے گھروں سے بے دخل کر دیا ہے۔
دوسری طرف، حماس اور اسلامی جہاد کے مسلح ونگز نے کہا کہ ان کے جنگجوؤں نے غزہ کے مختلف علاقوں میں اسرائیلی فوج کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے بموں اور ٹینک شکن ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے۔
جمعہ کے روز اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ انہوں نے غزہ میں رات بھر کیے گئے فضائی حملوں میں 75 اہداف کو نشانہ بنایا، جن میں ہتھیاروں کے ذخائر اور راکٹ لانچر شامل تھے۔
یہ تنازع 7 اکتوبر 2023 کو اس وقت شدت اختیار کر گیا تھا جب حماس کے جنگجوؤں نے سرحد پار حملہ کیا، جس میں اسرائیلی فوج کے مطابق 1,200 افراد مارے گئے اور 251 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا۔ غزہ کے صحت حکام کے مطابق اب تک اس جنگ میں 53,900 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، اور علاقہ شدید تباہی کا شکار ہے۔ امدادی ادارے متنبہ کر رہے ہیں کہ علاقہ شدید غذائی قلت سے دوچار ہے۔