انڈین ریاست آسام میں ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ان واقعات میں زیادہ تر نشانہ اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں اور قبائلی برادریوں کے افراد کو بنایا جا رہا ہے۔ ایک تحقیقی ادارے ہندوتوا واچ کے مطابق یہ خطرناک رجحان بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد شدت اختیار کر چکا ہے۔
رپورٹ کے مطابق آسام پولیس مسلمانوں کو مجرم قرار دے کر انہیں بغیر کسی عدالتی کارروائی کے مار رہی ہے۔ مئی 2021 سے دسمبر 2021 کے دوران پولیس کی فائرنگ سے کم از کم 31 افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں 14 مسلمان اور 10 مختلف قبائلی گروہوں سے تعلق رکھتے تھے۔ پولیس کا مؤقف ہر کیس میں تقریباً ایک جیسا رہا کہ ملزم نے فرار ہونے یا پولیس پر حملہ کرنے کی کوشش کی جس پر گولی چلانا ناگزیر ہو گیا۔

نومبر 2021 میں جورہاٹ شہر میں پیش آنے والے ایک واقعے میں نیرج داس نامی شخص کو طالب علم رہنما کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ یکم دسمبر کو وہ پولیس حراست میں ہلاک ہو گیا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ وہ جیپ سے چھلانگ لگا کر دوسری گاڑی سے ٹکرا گیا لیکن اہل خانہ نے اس کو فرضی کہانی قرار دیا اور واقعے کو منصوبہ بند قتل کہا۔
ایسے واقعات میں زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی قابل ذکر ہے۔ رپورٹ کے مطابق صرف چھ ماہ کے دوران 55 افراد پولیس فائرنگ سے زخمی ہوئے، جن میں 30 کے قریب مسلمان تھے۔
لازمی پڑھیں: پاکستانی وفد ’تجارتی مذاکرات‘ کے لیے اگلے ہفتے امریکا کے دورے پر آئے گا، ڈونلڈ ٹرمپ
جولائی میں جوینال عابدین کو ایک گینگ لیڈر قرار دے کر اس کے گھر سے گرفتار کر کے گولی مار دی گئی۔ عینی شاہدین اور اہل خانہ نے پولیس کے دعوے کو بے بنیاد قرار دیا۔

آسام کے وزیراعلیٰ ہمنتا بسوا سرما ان ماورائے عدالت اقدامات کا دفاع کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی مجرم فرار ہونے کی کوشش کرے تو اس پر گولی چلانا جائز ہے اور ایسے اقدامات اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک ریاست کو مجرموں سے پاک نہ کر دیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وزیر داخلہ امت شاہ نے انہیں منشیات، گائے کی اسمگلنگ اور انسانی اسمگلنگ کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا ہے۔
یہ سلسلہ بعض حلقوں میں عوامی حمایت بھی حاصل کرتا ہے، لیکن انسانی حقوق کی تنظیمیں، سابق پولیس افسران اور ناقدین اسے غیر جمہوری اور خطرناک رجحان قرار دے رہے ہیں۔
ان کے مطابق پولیس کی شفافیت، غیر جانبداری اور قانون کے مطابق کارروائی پر سنگین سوالات کھڑے ہو چکے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ فوری انصاف کے نام پر اقلیتوں کو بغیر مقدمے کے قتل کرنا نہ صرف قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ انڈیا کے جمہوری چہرے کو بھی داغ دار کر رہا ہے۔