Follw Us on:

اکیلا پن، غربت، اور بے حسی: بھوک نے ایک بہن کی جان لے لی، دوسری مدد کی منتظر

عاصم ارشاد
عاصم ارشاد
Bhawalpur incident
اکیلا پن، غربت، اور بے حسی: بھوک نے ایک بہن کی جان لے لی، دوسری مدد کی منتظر( فائل فوٹو)

ہمارے شہر، ہماری گلیوں، ہمارے محلے میں جانے کتنے ایسے دروازے ہیں جو بند تو ہوتے ہیں، لیکن اُن کے پیچھے زندگی آہستہ آہستہ موت کی طرف بڑھ رہی ہوتی ہے  اور ہمیں خبر تک نہیں ہوتی ایسا ہی ایک واقعہ بہاولپور کے علاقہ لوہار والی گلی میں پیش آیا جہاں دو بزرگ بہنیں، جو کہ غیر شادی شدہ اور تنہا زندگی گزار رہی تھیں، کئی روز سے بھوک اور پیاس کا سامنا کر رہی تھیں۔ اُن میں سے ایک تو دم توڑ گئیں، جب کہ دوسری اب بھی اسپتال میں زیر علاج ہے۔ ہفتے کے روز شام پانچ بجے ریسکیو 1122 کنٹرول روم کو ایک اطلاع موصول ہوئی۔ کال کرنے والے نے بتایا: “میرے ہمسائے میں دو بزرگ خواتین اکیلی رہتی ہیں، ان میں سے ایک شاید مر چکی ہیں اور دوسری کی حالت بہت خراب ہے۔

جب ریسکیو اہلکار لوہار والی گلی کے اس گھر میں پہنچے تو منظر دل دہلا دینے والا تھا۔ ایک خاتون کی لاش بستر پر موجود تھی، جو  ڈی کمپوز ہو چکی تھی ریسکیو اسٹاف کے مطابق موت دو سے تین دن پہلے واقع ہوئی تھی دوسری خاتون نیم بے ہوشی کی حالت میں تھیں، لیکن ہوش میں آتے ہی ان کے منہ سے نکلا”مجھے بہت بھوک لگی ہے  کھانے کے لیے کچھ دیں”۔

ریسکیو اہلکاروں نے فوری طور پر انہیں فرسٹ ایڈ دی اور بہاول وکٹوریہ اسپتال منتقل کر دیا۔ ڈاکٹروں کے مطابق خاتون کی حالت نازک ہے لیکن وہ بات کرنے کے قابل ہیں اہلِ محلہ کے مطابق دونوں بہنیں عمر رسیدہ تھیں (عمر تقریباً 60 سے 70 سال کے درمیان)، اور گھر میں تنہا زندگی گزار رہی تھیں۔ ان کا کوئی ذریعہ آمدن نہ تھا، اور نہ ہی کوئی قریبی عزیز یا خاندان کا فرد ان کے ساتھ تھا۔ اُن کا ایک بھائی تھا جو کئی برس قبل لاپتہ ہو گیا تھا اور آج تک اس کی کوئی خبر نہیں ملی

یہ بھی پڑھیں:بی جے پی کی ریپ کیسز پر خاموشی کیوں؟ انڈین اپوزیشن نے سوال اٹھادیا 

یہ وہ کہانی ہے جو ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت بیان کرتی ہے   ہم اپنے بزرگوں کو، اپنے اکیلے پڑوسیوں کو، اور اُن خاموش آوازوں کو جو مدد کے لیے پکارتی ہیں لیکن سنی نہیں جاتیں، کس حد تک نظر انداز کر چکے ہیں؟ یہ واقعہ صرف بہاولپور کا نہیں  یہ لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ اور ہر اُس شہر کی کہانی ہے جہاں معاشی دباؤ، سماجی لاپرواہی، اور مصروفیات زندگی میں اس قدر مگن ہیں کہ ہمیں اپنے ہمسائیوں کی خبر ہی نہیں، ہمارے محلے میں کوئی بزرگ اکیلا رہ رہا ہو تو کیا ہم نے کبھی پوچھا کہ وہ خیریت سے ہے؟ کیا اُس کے پاس کھانے کو کچھ ہے؟ یا وہ شدید گرمی میں زندہ ہے بھی یا نہیں؟ پولیس اس وقت واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے۔

سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا ایسی صورتحال میں ضلعی انتظامیہ، بیت المال، یا کوئی فلاحی ادارہ ان خواتین تک پہلے پہنچ سکتا تھا؟ اور اگر ہمسائے پہلے متحرک ہو جاتے تو کیا ایک جان بچائی جا سکتی تھی؟ ایسے واقعات ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہونے چاہییں۔

مزید پڑھیں:نوجوان پر تشدد میں ملوث ملزم سلمان فاروقی گرفتار ہوئے یا فوٹو شوٹ کروایا؟

ہمیں ایک قدم آگے بڑھانا ہوگا  اپنے بزرگوں، اکیلے رہنے والے ہمسایوں اور معاشرے کے کمزور طبقات کا خیال رکھنا ہوگا۔ بھوک، غربت، اور تنہائی سے مرنے والوں کی قبریں ہمیں کچھ نہیں کہتیں، لیکن اُن کی خاموش موت چیخ چیخ کر ہم سے سوال ضرور کرتی ہے

Author

عاصم ارشاد

عاصم ارشاد

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس