امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ رات ایک نئے صدارتی حکم نامے پر دستخط کرتے ہوئے 12 ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے، جبکہ مزید سات ممالک کے شہریوں کو جزوی پابندیوں کا سامنا ہوگا۔
یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ میں تارکین وطن کے حوالے سے سیکیورٹی خدشات، سیاسی بحث و مباحثے اور نفرت انگیز حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
ٹرمپ کے مطابق “کولوراڈو کے شہر بولڈر میں اسرائیلی یرغمالیوں کے حق میں نکالی گئی ایک ریلی پر حملے کے نتیجے میں 12 افراد زخمی ہوئے، اس واقع نے ثابت کر دیا ہے کہ ایسے غیر ملکی افراد جو مناسب طریقے سے ویریفائی نہیں کیے گئے، یا جو ویزا پر آ کر مدت ختم ہونے کے بعد واپس نہیں جاتے وہ امریکہ کے لیے شدید خطرہ ہیں۔”
ٹرمپ نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ “ہمیں ایسے لوگ نہیں چاہئیں۔ امریکہ کو ان ممالک سے آزادانہ ہجرت کی اجازت نہیں دینی چاہیے جہاں سے آنے والے افراد کی حفاظت اور جانچ پڑتال یقینی بنانا ممکن نہ ہو۔”
ٹرمپ کے جاری کردہ حکم نامے کے مطابق 9 جون سے جن 12 ممالک کے شہریوں پر مکمل پابندی عائد ہو گی، ان میں افغانستان، میانمار، چاڈ، جمہوریہ کانگو، استوائی گنی، اریٹیریا، ہیٹی، ایران، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن شامل ہیں۔
اس کے علاوہ سات ممالک کے شہریوں کو جزوی پابندیوں کا سامنا ہو گا جن میں برونڈی، کیوبا، لاؤس، سیرا لیون، ٹوگو، ترکمانستان اور وینزویلا شامل ہیں۔
اگرچہ پابندیاں سخت ہیں مگر چند مخصوص افراد کو ان سے استثنیٰ حاصل ہوگا۔ ان میں بین الاقوامی کھیلوں میں شرکت کرنے والے کھلاڑی، دوہری شہریت رکھنے والے افراد اور اسپیشل امیگرنٹ ویزا (SIV) رکھنے والے افغان شہری بھی شامل ہیں۔
مزید برآں امریکی وزیر خارجہ کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ “کیس ٹو کیس” بنیاد پر استثنیٰ دے سکتے ہیں، یعنی اگر کوئی فرد خاص حالات میں ہو تو اس کے لیے داخلے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق، یہ فیصلہ میانمار کے تناظر میں سب سے زیادہ متنازع بن جاتا ہے۔ میانمار ایک ایسا ملک ہے جو اس وقت فوجی جبر، سیاسی بدامنی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا شکار ہے۔ وہاں سے بڑی تعداد میں شہری پناہ گزین بن کر امریکہ سمیت دنیا بھر میں پناہ لے چکے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں تقریباً اڑھائی لاکھ برمی شہری پہلے سے آباد ہیں، جن میں بڑی تعداد اُن افراد کی ہے جو فوجی حکومت کے ظلم و ستم سے جان بچا کر امریکہ پہنچے ہیں۔ نئی پابندیاں ایسے ہی مظلوم افراد کو نشانہ بنائیں گی، جو اپنے ملک میں جمہوریت کے لیے لڑ رہے ہیں یا ہمسایہ ممالک میں غیر محفوظ زندگی گزار رہے ہیں۔
ایک ماہر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ “میانمار سے آنے والے افراد نے کبھی امریکہ میں دہشتگرد حملے نہیں کیے۔ یہ لوگ تو خود فوجی مظالم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ ان پر پابندی عائد کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔”
یہ فیصلہ امریکی معاشرے میں بھی شدید ردعمل کا باعث بنا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں، تارکین وطن کی حمایت کرنے والے اداروں اور ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنماؤں نے اس فیصلے کو “غیر انسانی، غیر ضروری اور سیاسی مقاصد کے تحت” قرار دیا ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اس فیصلے کے ذریعے اپنی انتخابی مہم کو تقویت دینا چاہتے ہیں تاکہ قدامت پسند ووٹروں کو خوش کیا جا سکے جو امیگریشن کو امریکہ کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔
ایک سابق سفارتکار نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ “یہ صرف قومی سلامتی کا مسئلہ نہیں، بلکہ ایک سیاسی بیانیہ ہے جو خوف، شکوک اور نفرت کو ہوا دیتا ہے۔”
نئی پالیسی سے نہ صرف متاثرہ ممالک کے عام شہریوں کے لیے امریکہ میں داخلہ ناممکن ہو جائے گا بلکہ وہ ہزاروں افراد بھی متاثر ہوں گے جو پہلے سے امریکہ میں پناہ گزین حیثیت اختیار کرنا چاہتے تھے۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ واقعی عالمی انسانی حقوق کے محافظ ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ یا یہ پالیسی صرف وقتی سیاسی فائدے کے لیے انسانی المیوں کو نظرانداز کر رہی ہے؟
ٹرمپ کا کہنا ہے کہ فہرست “مستقل نہیں” اور اگر کسی ملک کی حکومت شہریوں کی جانچ پڑتال کے نظام کو بہتر بنا لے تو اس پر سے پابندی ہٹائی جا سکتی ہے۔ تاہم یہ ایک طویل اور غیر یقینی عمل ہے، جس کا خمیازہ ان لاکھوں افراد کو بھگتنا پڑے گا جو پہلے ہی مصیبت زدہ حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔