صدر ڈونلڈ ٹرمپ بدھ کے روز ایک غیر متوقع اور اہم سفارتی پیش رفت کے طور پر وائٹ ہاؤس میں پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے اعزاز میں ظہرانے کی میزبانی کریں گے۔
یہ ملاقات وائٹ ہاؤس کے کیبنٹ روم میں ہوگی جس میں میڈیا کی رسائی نہیں ہوگی۔ تاہم امکان ہے کہ صدر ٹرمپ اگر میڈیا سے بات کریں یا سوشل میڈیا پر پوسٹ کریں تو اس ملاقات کےحوالے سے کوئی تفصیل بتائیں گے۔
اس ملاقات کو اسلام آباد میں ایک بڑی سفارتی جیت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں انڈین وفد نے امریکی نائب صدر جے ڈی وینس سے ملاقات کی تھی اور انڈین میڈیا نے اسے ایک بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا تھا، جب کہ پاکستانی وفد کی ایسی کسی ملاقات میں ناکامی کو اجاگر کیا گیا تھا۔ ایسے میں وائٹ ہاؤس کی یہ دعوت پاکستانی مؤقف کا سفارتی جواب سمجھی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ‘تمہاری چھٹیاں، ہماری مصیبت’ بارسلونا میں مقامی افراد ’اوورٹورازم‘ کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے
یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ فضائی کشیدگی کے بعد خطے میں خطرناک حد تک تناؤ بڑھا تھا۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر، جنہیں حال ہی میں پاکستان کے فائیو سٹار جنرل کے نایاب عہدے پر فائز کیا گیا ہے، اپنے امریکی دورے کے دوران توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انڈیا کو علاقائی بالادستی کی پالیسی ترک کر کے ایک مہذب قوم کی حیثیت سے پاکستان سے بات چیت کرنی چاہیے۔

پیر کی شام واشنگٹن کے فور سیزنز ہوٹل میں پاکستانی نژاد امریکی کمیونٹی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے انڈیا کی طرف سے پہلگام میں ہونے والے حملے کا الزام پاکستان پر ڈالنے کی سختی سے تردید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ انڈیا جان بوجھ کر ایسے حملوں کو پاکستان کے خلاف کارروائی کا بہانہ بناتا ہے اور یہ خطرناک رجحان عالمی سرحدوں کی خلاف ورزی کو معمول بنا رہا ہے، جسے پاکستان نے پوری طاقت سے مسترد کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر عزت کی بات ہو تو ہم شہادت کو گلے لگانا پسند کریں گے۔
اس ملاقات میں تارکین وطن نے ان کا شاندار استقبال کیا، ان پر گلاب کی پتیاں نچھاور کی گئیں اور ان کے حق میں نعرے لگائے گئے۔ ہوٹل کے باہر اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے افراد نے احتجاج کیا اور جمہوری اصلاحات و سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا، مگر ان کی آواز پنڈال کے اندر تک نہ پہنچ سکی۔
اپنے خطاب میں منیر نے ایران اسرائیل کشیدگی پر بھی بات کی اور ایران کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے۔ انہوں نے امریکی کوششوں کی بھی حمایت کی جو کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔
اس دورے کی ایک اور نمایاں پیش رفت امریکا اور پاکستان کے درمیان انسداد دہشت گردی کے شعبے میں تعاون کا نیا مرحلہ ہے۔ امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل کریلا نے پاکستان کو داعش خراسان گروپ کے خلاف ایک غیر معمولی شراکت دار قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں: مالی سال 2025-26: بلوچستان کے وزیر خزانہ نے 1020 ارب روپے کا بجٹ پیش کر دیا
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی آپریشنز نے داعش کے درجنوں جنگجوؤں کو ہلاک کیا اور کئی اہم رہنماؤں کو گرفتار کیا جن میں محمد شریف اللہ بھی شامل ہے، جو کابل ایئرپورٹ کے بم دھماکے کا ماسٹر مائنڈ تھا۔ جنرل کریلا کے مطابق جنرل منیر نے ذاتی طور پر انہیں اطلاع دی کہ وہ شریف اللہ کو امریکی حکام کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ حوالگی فوری طور پر عمل میں لائی گئی۔
جنرل کریلا نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے سرحدی علاقوں میں داعش خراسان کے خلاف کئی آپریشنز کیے ہیں اور وہ اس خطے میں دہشت گردی کے خلاف اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان کو شدید سیکیورٹی چیلنجز درپیش ہیں، جن میں صرف گزشتہ سال ایک ہزار سے زائد دہشت گرد حملے شامل تھے جن میں 700 سیکیورٹی اہلکار اور تقریباً ڈھائی ہزار شہری جاں بحق ہوئے، مگر اس کے باوجود پاکستان انسداد دہشت گردی میں قابل قدر شراکت دار رہا ہے۔
تارکین وطن کے ساتھ گفتگو میں جنرل منیر نے ملک کی معیشت میں ان کے کردار کو سراہا اور برین ڈرین کے تصور کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ درحقیقت دماغی فائدہ ہے کیونکہ بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنی صلاحیتوں سے ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔ انہوں نے ملکی سیاست پر براہ راست تبصرے سے گریز کیا اور جب ایک حاضرین نے عمران خان پر تنقید کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے بات کا رخ موڑتے ہوئے اختلاف رائے کے حق کا احترام کرنے پر زور دیا۔
شام کا اختتام ایک پرعزم پیغام کے ساتھ ہوا، جس میں جنرل منیر اور تارکین وطن دونوں نے ایک مضبوط، باوقار اور زیادہ مربوط پاکستان کے لیے اپنی وابستگی ظاہر کی۔ یہ دورہ نہ صرف پاکستان کے عالمی تعلقات کے لیے اہم ثابت ہوا بلکہ اس نے خطے میں پاکستان کے کردار اور اثر و رسوخ کو ایک بار پھر اجاگر کیا۔