انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلیفون پر گفتگو کے دوران واضح کیا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالیہ جنگ بندی براہ راست دونوں ممالک کی افواج کے درمیان رابطے کے نتیجے میں ممکن ہوئی، نہ کہ کسی بیرونی ثالثی کی بدولت۔ یہ بیان انڈیا کے اعلیٰ ترین سفارت کار، خارجہ سیکریٹری وکرم مصری، کی جانب سے جاری کردہ پریس نوٹ میں سامنے آیا۔
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے گزشتہ ماہ دعویٰ کیا تھا کہ انڈیا اور پاکستان، جو کہ دونوں جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں، ان کی ثالثی کے بعد ایک جنگ بندی پر رضامند ہوئے۔
انہوں نے کہا تھا کہ اُن کی اپیل پر دونوں ممالک نے جنگ کے بجائے تجارت کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا، جس کے نتیجے میں دشمنی ختم ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: ‘تمہاری چھٹیاں، ہماری مصیبت’ بارسلونا میں مقامی افراد ’اوورٹورازم‘ کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے
تاہم انڈین مؤقف اس بیان سے یکسر مختلف ہے۔ وکرم مصری نے کہا کہ وزیر اعظم مودی نے صدر ٹرمپ کو دوٹوک انداز میں بتایا کہ مئی کے تنازعے کے دوران نہ تو انڈیا-امریکا تجارتی معاہدے پر کوئی گفتگو ہوئی اور نہ ہی انڈیا اور پاکستان کے درمیان امریکی ثالثی کا کوئی ذکر ہوا۔ انہوں نے واضح کیا کہ جنگ بندی کی جو بھی بات چیت ہوئی، وہ دونوں ممالک کے مروجہ فوجی رابطہ چینلز کے ذریعے ہوئی، اور اس کی ابتدا پاکستان کی طرف سے ہوئی۔

مودی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ انڈیا نے کبھی کسی بھی مسئلے پر ثالثی کو تسلیم نہیں کیا اور نہ آئندہ کرے گا۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ کال جی-7 سربراہی اجلاس کے موقع پر ہوئی، جس میں مودی بطور مہمان شریک ہوئے تھے۔ یہ گفتگو صدر ٹرمپ کے اصرار پر ہوئی اور تقریباً 35 منٹ جاری رہی۔
اس گفتگو پر وائٹ ہاؤس سے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں آیا۔
پاکستان کی طرف سے اس سے قبل یہ مؤقف سامنے آ چکا ہے کہ 7 مئی کو انڈین افواج کی جانب سے کارروائی کے بعد جوابی رابطے اور جنگ بندی کی اپیل پاکستان کی جانب سے کی گئی تھی۔ پاکستان نے دعویٰ کیا تھا کہ سیز فائر اس وقت عمل میں آئی جب پاکستان نے اپنی فوجی کارروائیاں روکنے کا فیصلہ کیا۔
اس متضاد بیانیے نے جنگ بندی کے عمل میں امریکی کردار سے متعلق کئی سوالات کو جنم دیا ہے، اور دونوں ممالک اپنے اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔