چین کی میزبانی میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے دس رکن ممالک کا اجلاس آج جمعرات کو چنگڈاؤ شہر میں منعقد ہوا، جس میں پاکستان کی نمائندگی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کی۔ یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب دنیا بھر میں طاقت کے توازن اور علاقائی سلامتی سے متعلق معاملات خاصی اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چین کی یہ کوشش رہی ہے کہ ایس سی او کو مغربی ممالک کے اتحادوں جیسے نیٹو کے مقابلے میں ایک مضبوط اور بااثر پلیٹ فارم کے طور پر ابھارا جائے، جو نہ صرف رکن ممالک کے مابین شراکت داری کو فروغ دے بلکہ علاقائی سیکیورٹی، تجارت اور سیاسی استحکام کے لیے بھی اہم کردار ادا کرے۔
یہ بھی پڑھیں: عالمی یوم انسدادِ منشیات: دنیا بھر میں کوکین کے استعمال میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے، اقوامِ متحدہ
اس اجلاس سے ایک دن قبل ہیگ میں نیٹو کا سربراہی اجلاس ہوا، جس میں رکن ممالک نے اپنے دفاعی اخراجات بڑھانے پر اتفاق کیا، جب کہ اسی دوران مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور ایران کے درمیان بارہ دن کی لڑائی کے بعد جنگ بندی ممکن ہوئی ہے، جو عالمی سطح پر کشیدگی میں کمی کی علامت ہے۔

چینی وزیر دفاع ڈونگ جون نے اجلاس کے آغاز پر روس، ایران، پاکستان، بیلاروس سمیت دیگر ممالک کے وزرائے دفاع کا خیرمقدم کیا اور موجودہ عالمی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس صدی میں جو بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، ان کے ساتھ یکطرفہ فیصلوں اور تجارتی تحفظ پسندی (پروٹیکشنزم) میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حاکمانہ طرز عمل، تسلط پسندی اور دھمکیوں پر مبنی اقدامات بین الاقوامی نظام کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ رکن ممالک مزید ٹھوس اور مؤثر اقدامات کریں تاکہ پرامن ترقی کے لیے ایک محفوظ اور مستحکم ماحول تشکیل دیا جا سکے۔ چینی وزیر دفاع کی تقریر میں غیر متوازن عالمی طاقتوں کے رویے پر بالواسطہ تنقید بھی محسوس کی گئی۔
انڈین وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایس سی او کو موجودہ عالمی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنانی چاہیے اور رکن ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنی عوام کی امنگوں اور توقعات کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا اس وقت شدید نوعیت کی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے اور وہ گلوبلائزیشن جو ہمیں ایک دوسرے کے قریب لائی تھی، اب اپنی شدت اور رفتار کھو رہی ہے۔

اجلاس کے موقع پر چینی وزیر دفاع سے ملاقات میں روس کے وزیر دفاع آنڈرے بیلوسوف نے چین اور روس کے تعلقات کو “انتہائی اعلٰی سطح” کا قرار دیا اور کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون تمام شعبوں میں مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ ان کے مطابق یہ شراکت داری بین الاقوامی سطح پر ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔
اگرچہ چین نے یوکرین کے ساتھ جاری جنگ پر بظاہر خود کو غیرجانبدار فریق کے طور پر پیش کیا ہے، لیکن مغربی حکومتوں کا مؤقف ہے کہ بیجنگ نے اقتصادی اور سفارتی طور پر روس کی حمایت جاری رکھی ہے، جو اس جنگ کے پس منظر میں دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔
ایس سی او کا یہ اجلاس عالمی سیاست، سلامتی، اور اقتصادی توازن کے پس منظر میں خاص اہمیت کا حامل رہا، جہاں بڑی طاقتیں نہ صرف اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہیں بلکہ مستقبل کے عالمی نظام کی تشکیل میں بھی اپنے کردار کے لیے تیاری کر رہی ہیں۔