حکومتِ پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط پوری کرنے کی غرض سے گیس کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ کر دیا ہے۔
اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے یکم جولائی سے گیس کے مقررہ چارجز میں 50 فیصد اضافے کی منظوری دے دی ہے۔ اس فیصلے کا بنیادی مقصد مالی سال 2025–26 کے لیے توانائی کے شعبے میں خسارے کو پورا کرنا اور آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ اہداف کو پورا کرنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تین سال بعد ملک میں پہلی سزائے موت، یہ جاپانی مجرم کون تھا؟
سب سے زیادہ اثر گھریلو صارفین پر پڑا ہے، جہاں محفوظ صارفین کے لیے مقررہ چارجز 400 روپے سے بڑھا کر 600 روپے، اور غیر محفوظ صارفین کے لیے 1,000 روپے سے بڑھا کر 1,500 روپے کر دیے گئے ہیں۔
مزید برآں، ایک سلیب فائدہ ختم کر دیا گیا ہے، یعنی اب ہر صارف سے ابتدائی شرح کے مطابق چارجز لیے جائیں گے۔

غیر گھریلو صارفین، جن میں صنعتی اور بجلی کے شعبے شامل ہیں، ان کے لیے بھی گیس کے نرخ اوسطاً 10 فیصد تک بڑھا دیے گئے ہیں۔ صنعتی صارفین کے لیے نرخ 2,150 سے بڑھا کر 2,350 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کر دیے گئے، جب کہ بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹس کے لیے یہ نرخ 1,050 سے بڑھا کر 1,350 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کر دیے گئے ہیں۔ بلک صارفین کے لیے بھی قیمت 2,900 سے بڑھا کر 3,175 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کی گئی ہے۔
ای سی سی کے اس فیصلے سے سوئی ناردرن اور سوئی سدرن گیس کمپنیوں کو اگلے مالی سال میں متوقع 41 ارب روپے کے خسارے سے نکلنے میں مدد ملے گی، اور مجموعی طور پر 888 ارب روپے سے زائد آمدنی حاصل کی جا سکے گی۔
پیٹرولیم ڈویژن نے خبردار کیا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ کراس سبسڈی ختم کرنے پر رضامند ہو چکی ہے اور اب براہ راست امداد صرف بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے دی جائے گی۔

اجلاس میں چینی کی درآمد کے معاملے پر فیصلہ نہیں ہو سکا اور یہ معاملہ قومی غذائی تحفظ کے وزیر کی سربراہی میں ایک سیاسی کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ کمیٹی میں وزیر تجارت، سیکریٹری خزانہ، چیئرمین ایف بی آر سمیت 10 ارکان شامل ہیں جو اپنی سفارشات جلد ای سی سی کو پیش کریں گے۔
اجلاس میں ترسیلات زر کی اسکیموں میں تبدیلی، چھوٹے کسانوں کے لیے رسک کور اسکیم، اور مختلف محکموں کے لیے 856 ارب روپے کی 14 ضمنی گرانٹس کی بھی منظوری دی گئی۔ ان میں سب سے بڑی گرانٹ، 832 ارب روپے، وزارت خزانہ کو قرض کی واپسی کے لیے دی گئی ہے۔
وزارت دفاع کو 15.84 ارب روپے کی گرانٹ دی گئی، جس کا ایک حصہ شہداء کے اہل خانہ کو ادائیگی کے لیے مختص ہے، جب کہ اسٹرٹیجک پلانز ڈویژن کو سپارکو کے لیے 5.5 ارب روپے ملے ہیں۔
مجموعی طور پر، حکومت کا یہ قدم ایک طرف آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرتا ہے، دوسری طرف غریب اور عام صارفین پر مالی بوجھ بڑھا دیتا ہے، جس پر ممکنہ عوامی ردِ عمل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔