امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے لیے 30 ارب ڈالر مالیت کے ممکنہ سول نیوکلیئر پروگرام کی حمایت سے متعلق خبروں کی تردید کرتے ہوئے انہیں جھوٹ اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔
جمعے کے روز صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ایک بیان میں کہا کہ ‘جعلی خبروں کے میڈیا میں وہ کون ہے جو یہ کہہ رہا ہے کہ صدر ٹرمپ ایران کو غیر فوجی نیوکلیئر سہولیات کے لیے 30 ارب ڈالر دینا چاہتے ہیں۔ میں نے اس مضحکہ خیز خیال کے بارے میں کبھی نہیں سنا، یہ سراسر دھوکہ ہے’۔

یہ ردعمل خبر رساں ایجنسی سی این این اور این بی سی نیوز کی ان رپورٹس کے بعد سامنے آیا جن میں کہا گیا تھا کہ امریکی انتظامیہ حالیہ دنوں میں ایران کو یورینیم افزودگی روکنے کے بدلے میں کچھ معاشی مراعات دینے پر غور کر رہی ہے۔
سی این این نے امریکی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ کئی تجاویز زیر غور آئی تھیں لیکن وہ ابتدائی مرحلے میں تھیں۔
واضح رہے کہ اپریل 2025 سے ایران اور امریکا کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے بالواسطہ مذاکرات جاری ہیں۔ تہران کا مؤقف ہے کہ اس کا نیوکلیئر پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے، جب کہ واشنگٹن کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار تیار نہ کر سکے۔

صدر ٹرمپ نے رواں ہفتے کے آغاز میں ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔ یہ جنگ 13 جون کو اس وقت شروع ہوئی جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا۔ اس کے بعد امریکا نے گزشتہ ہفتے ایران کے جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا، جب کہ ایران نے اس کے ردعمل کے طور پر قطر میں امریکی فوجی اڈے پر حملہ کیا۔
اسرائیل، جو مشرق وسطیٰ کا وہ واحد ملک سمجھا جاتا ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں، ایران کے جوہری پروگرام کو ایک خطرہ تصور کرتا ہے۔ ایران اگرچہ جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے(این پی ٹی) کا رکن ہے، لیکن اسرائیل اس معاہدے کا حصہ نہیں۔
اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے (آئی اے ای اے) کا کہنا ہے کہ ایران میں کسی منظم، فعال جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کے موجود ہونے کے کوئی قابل اعتبار شواہد موجود نہیں ہیں۔