13 جون سے شروع ہونے والے اسرائیلی حملوں اور امریکی ائیر سٹرائیک کے بعد دعویٰ کیا گیا کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کردیا گیا ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے تو بار بار کہا جارہا ہے کہ اب ایران کبھی بھی جوہری طاقت حاصل نہیں کرسکے گا۔
مگر اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے سربراہ رافیل گروسی نے کہا ہے کہ ایران ممکنہ طور پر ’چند مہینوں‘ میں یورینیم کی افزودگی دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی کہتے ہیں کہ جوہری تنصیبات کو ہونے والا نقصان ’سنجیدہ‘ ہے، لیکن اس کی تفصیلات نامعلوم ہیں۔
گروسی کہتے ہیں ’کچھ اب بھی باقی ہے۔‘
سوال یہ ہے کہ اگرفردو، نطنز اور اصفہان میں موجود ایٹمی تنصیبات کو تباہ کیا گیا ہے تو پھر ان سے تابکاری کیوں نہیں ہوئی؟ ایک اور اہم سوال یہ بھی ہے کہ آیا ایران حملوں سے قبل اپنے 408.6 کلوگرام کے افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو کسی اور جگہ منتقل کرنے میں کامیاب ہو سکا یا نہیں۔

یہ یورینیم 60 فیصد تک افزودہ ہے، جو شہری مقاصد کے لیے درکار سطح سے زیادہ ہے، لیکن اب بھی جوہری ہتھیاروں کی سطح سے کم ہے۔
اس مواد کو اگرمزید افزودہ کیا جائے تو نظریاتی طور پر اس سے نو سے زائد ایٹمی بم تیار کیے جا سکتے ہیں۔
گروسی نے سی بی ایس سے گفتگو میں اعتراف کیا ’ہمیں نہیں معلوم کہ یہ مواد کہاں ہو سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا ’یہ ممکن ہے کہ کچھ حصہ حملوں میں تباہ ہو گیا ہو، اور کچھ منتقل کر لیا گیا ہو۔ اس لیے کسی مرحلے پر اس کی وضاحت ہونی ضروری ہے۔‘
فی الحال، ایرانی پارلیمنٹ نے IAEA کے ساتھ تعاون معطل کرنے کے حق میں ووٹ دیا ہے اور تہران نے گروسی کی ان تنصیبات، خاص طور پر فردو میں معائنہ کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے جو کہ یورینیم افزودگی کا مرکزی مقام ہے۔
گروسی نے کہا ہے کہ ہمیں اس پوزیشن میں ہونا چاہیے کہ ہم یہ تصدیق کر سکیں کہ وہاں کیا ہے، کہاں ہے، اور کیا ہوا۔