جون 2025 میں جب ملک شدید معاشی دباؤ، عوامی بے چینی اور گورننس کے بحران کا سامنا کر رہا ہے، اس وقت ایک سوال ہر باشعور شہری کے ذہن میں گردش کر رہا ہے کہ ہماری اسمبلیاں مسائل کے حل کی جگہ لڑائی جھگڑے کا اکھاڑا کیوں بن گئی ہیں؟
پچھلے چند برسوں میں پارلیمانی کارروائیوں کی وہ سنجیدگی جو کبھی قانون سازی اور عوامی فلاح کی علامت سمجھی جاتی تھی، اب محض سیاسی مخالفین پر الزامات، شور شرابے اور نعرہ بازی تک محدود ہو چکی ہے۔
حال ہی میں ہونے والے پارلیمانی سیشنز میں یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ اسمبلی کا وقت زیادہ تر ایک دوسرے کی کردار کشی، بجٹ پر چیخ و پکار اور جذباتی تقاریر کی نذر ہو جاتا ہے۔ ٹی وی پر آنے والے مناظر میں حکومتی و اپوزیشن اراکین ایک دوسرے پر میز پر چڑھ کر بولتے، کاغذات پھاڑتے اور کبھی کبھار تو ہاتھا پائی کرتے نظر آتے ہیں۔ اس سارے ماحول میں عوامی مسائل جیسے مہنگائی، بیروزگاری، تعلیم، صحت اور انصاف کہیں کھو جاتے ہیں۔
یہی وہ لمحہ ہے جہاں سے عوام کا ایوانوں پر سے اعتماد تیزی سے ختم ہونا شروع ہوا۔ ملک کے مختلف شہروں میں کیے گئے سروے ظاہر کرتے ہیں کہ ایک عام شہری یہ محسوس کرنے لگا ہے کہ اسمبلیاں صرف طاقت کا کھیل بن چکی ہیں، جہاں اصل موضوع عوام نہیں بلکہ پارٹی بچانے اور مخالف کو گرانے کی حکمت عملی ہوتی ہے۔
نوجوان طبقہ، جو تبدیلی اور اصلاحات کا سب سے بڑا حامی رہا ہے، اب سیاست سے لاتعلق ہوتا جا رہا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ ادارے اب ان کے مستقبل کے فیصلے کرنے کی اہلیت کھو بیٹھے ہیں۔

پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے نوجوان وکیل عدنان خان کہتے ہیں کہ قانون سازی ایک مقدس عمل ہوتا ہے، لیکن ہماری اسمبلیوں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس عمل کی توہین ہے۔ اسمبلیاں اب وہ مقام نہیں رہیں جہاں عوامی فلاح کے قوانین بنتے ہوں، بلکہ یہ صرف لائیو شو بن چکے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر پارلیمنٹ میں سنجیدگی واپس نہ آئی تو عدلیہ اور غیر منتخب اداروں کو مزید مداخلت کا موقع ملے گا۔
تعلیم سے وابستہ پروفیسر مہوش تسنیم کہتی ہیں کہ نصابِ تعلیم، بچوں کے تحفظ، ہنر مندی کی تربیت جیسے اہم موضوعات ایوانوں میں زیربحث ہی نہیں آتے۔ ہر سیشن میں صرف وہ بات ہوتی ہے جو میڈیا پر ہیڈ لائن بن سکے۔ جس ملک کی پارلیمنٹ تعلیم پر خاموش ہو، وہاں ترقی کا خواب دیکھنا محض ایک فریب ہے۔
کراچی کے شہری محمد انور، جو کہ ایک دکاندار ہیں، نے کہا ہے کہ ہم ووٹ دیتے ہیں تاکہ ہمارے مسائل اسمبلی میں اٹھیں۔ لیکن وہاں تو صرف شور سنائی دیتا ہے، فیصلے ہوتے ہی نہیں۔ ہمیں نہ ریلیف ملتا ہے، نہ انصاف۔ ہم اب کسی کو سنجیدہ نہیں لیتے۔
اسمبلیوں میں بڑھتے ہوئے شور شرابے کی ایک بڑی وجہ سیاسی عدم برداشت اور ذاتی مفادات کی بالادستی ہے۔ منتخب نمائندے اب سیاسی مخالفین کو دشمن سمجھنے لگے ہیں اور ان کے نزدیک سب سے بڑا مقصد اپنے لیڈر کا دفاع اور مخالف کا زوال بن چکا ہے۔ میڈیا کی موجودگی میں ہر رکن چاہتا ہے کہ وہ “زیادہ بولے”، “زیادہ غصہ دکھائے” اور “زیادہ واہ واہ سمیٹے”، چاہے وہ موضوع عوامی فلاح کا ہو یا نہ ہو۔
اس ماحول کا ایک اور منفی پہلو یہ ہے کہ جو چند مخلص اراکین سنجیدگی سے کام کرنا چاہتے ہیں، وہ بھی اس شور میں دب کر رہ جاتے ہیں۔ قانون سازی میں تاخیر، کمیٹیوں کا غیر فعال ہونا اور پالیسیوں پر اتفاقِ رائے نہ ہونا اسی کلچر کا نتیجہ ہے۔

دوسری جانب بیوروکریسی اور غیر منتخب ادارے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پالیسی سازی کے خلا کو پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو جمہوری نظام کے لیے خطرناک علامت ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا اس رجحان کو روکا جا سکتا ہے؟ کیا عوام کا اعتماد ایوانوں پر واپس آ سکتا ہے؟ جواب ہے کہ جی ہاں، لیکن اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی حکمت عملی بدلنی ہوگی۔ انہیں احساس کرنا ہوگا کہ عوام کا اعتماد کھونا، جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی کرنا ہے۔ قانون سازی کو ترجیح دینی ہوگی، عوامی مفاد کے موضوعات پر توجہ دینا ہوگی اور اختلاف کو دشمنی کی بجائے دلیل کا راستہ دینا ہوگا۔
مزید پڑھیں: 2018 کی طرح یہ حکومت بھی دھاندلی زدہ، نہ اسے چلنے دیا نہ اسے چلنے دیں گے، مولانا فضل الرحمان
اگر ایسا نہ کیا گیا، تو وہ دن دور نہیں جب لوگ ووٹ ڈالنے سے انکار کر دیں گے، پارلیمانی عمل کو بے معنی سمجھیں گے اور یہ ادارے محض علامتی حیثیت کے حامل رہ جائیں گے۔ جمہوریت کی روح یہی ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے عوام کی آواز بنیں۔ اگر وہی نمائندے چیخ و پکار، گالم گلوچ اور انا کی جنگ میں مشغول رہیں تو عوام کو کوئی اور راستہ دیکھنا پڑے گا۔
یہ وقت ہے جب ہمارے منتخب نمائندوں کو سمجھنا ہوگا کہ عوام کا ایوانوں پر سے اعتماد صرف قانون سازی، شفافیت اور اخلاقی طرز عمل سے ہی بحال ہو سکتا ہے۔ بصورت دیگر، یہ شور ایک دن ایسا سناٹا لے آئے گا جس میں جمہوریت کی آواز دب جائے گی اور پھر شاید واپسی ممکن نہ ہو۔