امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ فلوریڈا ایورگلیڈز میں مرکز میامی سے تقریباً 60 کلومیٹر دور ایک دلدلی علاقے میں تارکین وطن کے لیے قائم ایک دور دراز حراستی مرکز کا افتتاح کریں گے، جسے ’ایلیگیٹر الکاٹراز‘ کا نام دیا گیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق یہ مرکز میامی سے تقریباً 60 کلومیٹر دور ایک دلدلی علاقے میں واقع ہے، جہاں مگرمچھ، مگر اور اژدہے پائے جاتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس اس خطرناک ماحول کو علامتی طور پر پیش کر رہا ہے تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ حکومت سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں دی گئی مبینہ رعایتوں کے تحت مقیم تارکینِ وطن کو ملک بدر کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیوٹ نے کہا کہ اس مرکز تک صرف ایک ہی سڑک جاتی ہے اور واپسی کا واحد راستہ ملک بدری کی ایک طرفہ پرواز ہے یہ جگہ خطرناک جنگلی حیات اور ناقابل رحم علاقے سے گھری ہوئی ہے۔
کپیٹل ہل میں قانون ساز ملک بدری کے لیے فنڈنگ بڑھانے کے بل پر غور کر رہے ہیں، جسے ٹرمپ 4 جولائی سے قبل منظور کروانا چاہتے ہیں۔ اس میں امیگریشن نفاذ کے لیے درجنوں ارب ڈالر کے علاوہ دیگر ٹیکس اور اخراجاتی تجاویز بھی شامل ہیں۔
صدر ٹرمپ امیگریشن مخالف پالیسیوں کو طویل عرصے سے اپنی سیاسی حکمت عملی کا حصہ بنائے ہوئے ہیں۔ 2024 کے انتخابات میں ایک جائزے کے مطابق ہر آٹھ میں سے ایک ووٹر کے نزدیک امیگریشن سب سے اہم مسئلہ ہے۔

ٹرمپ کے ہر سال 10 لاکھ افراد کی ملک بدری کے وعدے کو عوامی مظاہروں، سستی لیبر کی طلب اور مالی مشکلات جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:روس کا یوکرین کے ایک علاقے پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ
وفاقی اعداد و شمار کے مطابق ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے وقت حراستی مراکز میں 39,000 افراد موجود تھے، جو 15 جون تک بڑھ کر 56,000 ہو چکے ہیں۔ ان کی انتظامیہ مزید جگہوں کی تلاش میں ہے۔
ٹرمپ نے ایل سیلواڈور کے وسیع جیل خانوں کی تعریف کی ہے اور ان کی انتظامیہ نے بعض تارکین وطن کو گوانتانامو بے پر بھی حراست میں رکھا ہے۔ زیرِ حراست افراد کے وکلاء نے ان کی ملک بدری کو عدالت میں چیلنج کیا ہے اور عارضی مراکز کی حالت پر تنقید کی ہے۔